اگرچہ عرب کا مذہب اللہ کی اسلام کے ایک سچے خدا کے طور پر عبادت کرنے کے لیے آغوش میں لیے ہوئے ہے لیکن اِس نے ابھی تک اپنے آپ کو اپنے مشرکانہ ماضی سے جُدا نہیں کیا ہے ۔
کعبہ جو مکعب نماعمارت مکہ میں واقع ہے اسلام کا سب سے مقدس مقام ہے اب اسلام کی آمد سے پہلے اِسے مظاہر پرست آستانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔
اِس کی بناوٹ کا بنیادی پتھر سیاہ شہابی پتھر ہے جسے آسمان سے گِرا ہوا کہا جاتا تھا اور اِس کی سیاہی کا تعلق انسانی گناہ کی تاریکی کے ساتھ تھا ۔ آج مسلمان حج کے دوران اِس پتھر کو توقیر یا عبادت کے عمل کے طور پر بھوسہ دیتے ہیں ۔
اسلام سے پہلے کی تہذیب میں قدیم عرب کے لوگ اِس مذہبی چٹان حجرہ کے زیر اثر تھےجس نے اُن کے اپنے رسمی اعمال کے حصہ کے طور پر اِن سیاہ پتھروں کی قدر بڑھائی ۔ عرب کے لوگ پتھروں کی پوجا کرنے والے تھے جس میں اُن کے قبائلی گروہ اپنے کعبہ کی عبادت گاہ کو رکھتے تھے جو اُن کا اپنا سیاہ چٹان کا گھر تھا جس میں وہ عبادت کرتے تھے ۔
کعبہ کے ساتھ منسلک رسومات میں سے ایک آستانہ کا محاصرہ کرنا یا طواف کرنا ہے ۔ اِس کا نظریہ کہ کیسے مظاہر پرست عمل وجود میں آیا یہ ہے کہ اِن قبائلی گروہوں کو کعبہ کے گرد دائرہ لگانا تھا جسے چاند ، سوج ، اور ستاروں کی پوجا کرنے کے لیے آسمانی چیزوں کی تحریک کے لیے پسند کیا جاتا تھا ۔ اِس عمل میں اِن قبیلوں کواِس پتھر کو بھوسہ دینا بھی تھا جس پر خدا یاں روحوں کی طرف سے سکونت اختیار کرنے کے لیے ایمان رکھا جاتا تھا۔اِس چٹان کو چومنا اور اِس پتھر کو چھونا خاص برکت لانے کے لیے قیاس کیا جاتا تھا۔
کعبہ کی سیاہ چٹان کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے چاند کے خدا ہوبالؔ کی پوجا بھی شامل ہے ۔
عرب تہذیب کے دوسرے پہلو جن کا تعلق عرب معاشرے سے متعلقہ اُن کے قدیم مظاہر پرست ماضی کے ساتھ ہے “مناؔ پر پتھر مارنا ، “صفا اور مروا” بھاگنا “جو کہ اِن بُت پرست لوگوں کا بنایا ہوا قانون ہے جسے دو بُتوں میں بھاگنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ، اور آخر کار ، ” تعریف” جو اُن کے مرے ہوئے آباو اجداد کی تعریف کی قدیم رسم کا مذاق اُڑاتی ہے اور اب اِس عمل کو اللہ کی تعریف کے ساتھ نئے سرے سے قائم کیا گیا ہے ۔
عرب کی تہذیب اپنے مظاہر پرست ماضی سے واضح طور پر ٹوٹتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی ہے اگرچہ یہ اپنے نئے نشان
لاالہ الااللہ ( واحدانیت ) کے تحت اِس کا دعویٰ کرتی ہے ۔ یہ مذہب اسلام میں ہمہ وقت مشترکہ عرب کی تہذیب کی مشق نے ایک خالص مذہبی جُز کی بجائے ایک آمیزش کو پیدا کر دیا اور کعبہ کواسلام کے ایک مقررہ ستون کے طور پر نمایاں کر دیا جو عیاں کرتا ہے کہ یہاں اِس مذہبی ساخت کو تعمیر کرنے کے لیے کچھ شگاف موجود ہیں ۔
لہذا اِسلام درحقیقت ایک سچا ایمان ہونے کے طور پر کتنا زیادہ اپنی یکتا شناخت کو لاتا ہے ؟ یہ ظاہر ہے کہ اِس نے اپنی ساخت کو یہودی مسیحی اعتقا د سے اپنایا اور اپنے اندون کو اپنے مظاہر پرست ماضی کی پسندیدگی سے سجایا اور معمور کیا ۔
کیا یہ واقعی سچا مذہب ہے یا محض دوسرے مذہبی دُنیا کے مشترکہ نظریات کے ساتھ ایک مقاملہ مذہب کے عمل کو جوڑتے ہوئے بہت سے نظریات کے انبار سے اُدھار لے رہا ہے ؟
کیا آپ دعوے کے ساتھ حلف اُٹھاتے ہیں اور ایک ایسے مذہب کی اطاعت کرتے ہیں جو اپنے مذہبی ماضی کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے پاک صاف نہیں ہے ؟ کیا اسلام نئے نمونے پر مرتب ہو چُکا ہے اور بُت پرستی کی ایک ایسی ہی ساخت کے طور پر شناخت رکھتا ہے جو ایک باریک نئی دھات کے ساتھ ڈھکا ہوا ہے اور ایک ملکوتی مخلوق کی طرف سے دئے گئے الہام کی بنیا د پر نیا مذہب ہے ؟ شاید جو اسلام کے پردہ کے پیچھے چھپا ہوا ہے وہ یہ ہے ایک بڑا بُت بمقابلہ دیوتاوں کا ایک قطب۔
اِس بلاگ کو لکھتے ہوئ میں نے اِس معاملے سے متعلق بہت سے مختلف ذرائع کو اکٹھا کیا ہے اور میں نے اِس معلومات کو ترتیب میں مخلص اور بے داغ تشخیص قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اِس بلاگ کومحض ایک بدنام مشہوری کے طور پر لیتے ہوئے برخاست کرنے کا ارادہ مت کیجیے ۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرونگا کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اِس معاملہ کے متعلق اپنی ذاتی تحقیق کیجیے ۔
اِس بلاگ کے ذریعے میں اسلامی عقیدے کو چیلنج کی پیشکش کر چُکا ہوں مسلمانوں کے لیےاُس غیر ضروری غیبت اور جھوٹےالزامات سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے جسے وہ مقدس ہونے کے طور پر تھامے ہوئے ہیں ۔ میں اپنے بہت سے مسلمان دوستوں کو پہچانتا ہوں جو اپنے خدا کے تصور کے لیے مخلص اوردیندار ہیں اور میں اِس کی قدر کرتا ہوں ۔ اب جو میں اُنہیں کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں وہ اُنہیں حقیقی معلومات سے راہنمائی حاصل کرنے کی اجازت دینا ہے کہ وہ اپنی بہتر فرمانبرداری اور اطاعت کے لیےبہتر فیصلے کریں ۔
اختتام پر اگر آپ مسلمان ہیں میں آپ کی دعا کے وسیلہ حوصلہ افزائی کرونگا کہ خداوند سے اسلامی ایمان اور عمل کے پیچھے چھپی سچائی کے متعلق پوچھیے ۔
خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے