Archive for the ‘اردو-Urdu’ Category

یسوع کے خواب اور رویا

Saturday, January 10th, 2015

ہیلو! مسلم ملک میں سے میرے ایک دوست نے مجھ سے ان لوگوں کے بارےمیں پوچھا جو یسوع کے خواب اور رویا کا تجربہ رکتھے ہیں خدا کے متعلق بتانے میں میں نے اپنے خواب سے شروع کیا۔ میں بچہ تھا اور اس خواب کو خود نہیں بنا سکتا تھا۔ وہ تیز روشنی کے ساتھ مجھ پر ظاہر ہوا جو بائبل کی وضاحت کے مطابق خدا کے جلال کے مترادف تھا اس وقت شاہد میں اس سے واقف نہ تھا لیکن اس نے مجھ پر گہر ااثر چھوڑا جو مجھے آج تک یاد ہے اگرچہ اس نے کچھ نہ کہا لیکن اسکی موجودگی نمایاں طور پر مجھ سے باتیں کر رہی تھی وہ عباد ت سے لائق تھا۔ اسی لیے میں نے اسے سجدہ کیا۔
میرے یہودی دوستوں کے جوڑے پر بھی اسی طرح یا ذاتی تجربہ گزرا میری ایک بہترین دوست تمام مذاہب کی حمایت کرتی جبکہ مسیحیت کی معدافقت کرتی اس نے کبھی میری بات کو سنجیدہ نہ سمجھا اور اس نقطہ پر بات ختم کر تی کہ اس کے والد مسیحیوں پر اچھی بحث کرتے ہیں۔
تاہم موت سے قبل ہسپتال میں اس نے یسوع کی طرف سے آنے والے کچھ ملاقاتیوں کے بارے میں بتایا یہ بات تصادم کے مترادف ہے کہ ایک یہودی یسوع کے قابل ذکر اور معجزانہ وقوعہ کو مانے لیکن میرا ایمان ہے مسیحا کی موجودگی نے اس کے شعور کو مکمل تبدیل کر دیا۔
دوسری کہانی جنوبی افریقہ کے یہودی کی ہے جو اس چرچ کے پاسبانوں میں ایک تھا جہاں میں جاتا وہ بھی یسوع کے مسیحا ہونے کا انکار کرتا بہر حال یروشیلم کے دورے میں اس نے اس کے بارے میں کئی رویائیں دیکھیں اب اسے ایک کتاب لکھنے کا تجربہ حاصل ہوا جس کا نام ہے۔ “یروشیلم میں میری اتفاقیہ ملاقات
آخر میں میرے مسلمان دوستوں کی کچھ نہایت دلچسپ اور حیران کن کہانیاں یا گواہیاں جو ناصرف یسوع کے نبی ہونے کا احترام کرتے بلکہ اس کے خداوند ہونے پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
ایک بین الا قوامی چرچ تقریب میں، میں ایک مشرق وسطی کے نیک آدمی سے ملا جسے بعد میں میں سبز ی کے سٹور پر ملا میں نے اس ایرانی شخص سے ایمان لانے کی وجہ پوچھی اس نے یسوع کے خواب اور رویاؤں کے بارے میں بتایا اپنے ایک دوسرے فلسطی دوست سے میں اسرائیل میں ملا اس نے کہا کہ اگرچہ میرا مذہبی پس منظر مسلم ہے لیکن میں یسوع پر ایمان لایا ہوں اسکے اس ایمان پر کہ یسوع اس پر ظاہرہوا اور اسے روشنی سے بھر دیا۔ جیل میں ڈال دیا گیا۔
میں دوسرے کئی لوگوں سے ملا جن میں پاکستان کی ایک خاتون شامل تھی اس نے بتایاکہ جوانی میں اس نے یسوع کو پانی پینے کی پیش کش کرتے دیکھا۔ میں نے اس نقطہ کی وضاحت بائبل کےمتن سے کی کہ یسوع زندگی کا پانی سے جو زندگی دیتا ہے۔
ایران کی ایک عورت نے مجھے ای۔ میل بھیجی اور کہا کہ صبح کی دعا کے بعد میں بستر میں ابھی بیدار ہی تھی کہ اچانک سبز روشنی سے کمرہ بھر گیا اور مرد کی آواز آئی کہ اٹھو میں مسیحا ہوں۔ اس نے بتایا کہ جواباً ڈرتے ہوئے بستر سےاٹھی اور چادر کو لپیٹ لیا کیونکہ اس نے حجاب نہیں پہنا تھا۔
قریباً ان کہانیوں کی کچھ تفصیلات میں بھول گیا کاش میں وقت پر اسے محفوظ کر لیتا۔ بہرحال میں زیادہ سے زیادہ ان رویاؤں کے بارے میں سن رہاہوں جو حقیقی ہیں ۔ اور زندگیاں تبدیل کر رہی ہیں۔
اس امر پر یہ مرد اور خواتین اپنے خاندانوں او ر معاشرہ سے الگ ہونے اور بعض موت کا سامنا کرنے کےلیے تیار ہیں جبکہ لوگ اپنی زندگی میں کوئی خطرہ نہیں لیتے۔ میر ا ایمان ہے کہ مشکل گھڑی میں طاقتوار اور محترک اثرات دو گروہوں کے عقیدہ کی عظیم ترین شخصیات موسیٰ اور محمد سے نہیں آیا۔ بلکہ بیداری کی یہ بلاہٹ یسوع کی ذات اور کلام پر ایمان لا کر سیکھی یا ہدایت پائی۔
ہو سکتا ہےکہ آپ کا سوال ان بیانات پر درست ہو۔ لیکن میں التماس کرتا ہوں کہ آپ خدا یا یسوع سے پوچھیں کہ وہ ذاتی طور پر آپ پر ظاہر ہو کر اپنے بارے میں بتائے تاکہ آپ اس کےخداوند اور نجات دہندہ ہونے پر ایمان لائیں۔ آخر 700 کلب پر میں نے ایمان لانے والے مسلمانوں کے بارے میں دو فلمیں دیکھیں۔

www.cbn.com/tv/3166680520001

www.cbn.com/cbnnews/insideisrael/2012/june/dreams-visions-moving-muslims-to-christ/

www1.cbn.com/video/fatimas-quest-for-god

morethandreams.org/

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Visions and Dreams of Jesus, Isa, Esa, Yeshu, Yeshua

طہا رت اور پا کیزگی

Saturday, January 10th, 2015

جب آپ دنیا کے بڑے مذاہب پر غور کریں تو عام معمول کی زندگی میں آپ اپنے آپ کو
پا ک کرنے کے کچھ اصول اپنی زندگی میں اپنا ئےہو ئے ہیں یہ زچگی سے موت تک شامل ہیں روزمرہ کی زندگی کی کئی سرگرمیوں اور انسانی تجربا ت میں شامل ما ہوری ، معدے میں شدید تیزابیت ، سونے ، جنسی تعلقات ، دورے میں ، خون بہنے میں ، احتلام کے ، قے آنے ، میں اور دیگر بیما ریوں وغیر ہ میں اپنے آپ کو صاف کرتے ہیں۔
کچھ صاف کرنے کی رسومات میں غسل کرنا بھی شامل ہے یہ اہم بھاہا ئی ایما ن میں عام ہے جبکہ دوسرے ، اپنے جسموں کو مکمل طور پر پانی میں ڈبو دیتے ہیں ۔مکو ا یہودیو ں میں ہا تھ دھونے کی رسم جبکہ مسلما نو ں میں غسل وضو کی رسم پا ئی جا تی ہے ۔ہندو دریا ئے گنگا میں نہا نا اور اچا منا اور پنیہا وا چا نا م پرعمل کر تے ہیں۔ شینٹو ش مو گی اور آبا ئی امریکن انڈین سیوٹ لو ج پر عمل کر تے ہیں۔ اگرچہ یہ مذاہب دنیا میں مختلف خیالات رکھتے ہیں لیکن سب میں مشا بہت اور ہم آہنگی پا ئی جا تی ہے ۔ جسے سب میں پا نی کا شامل ہو نا ۔ ہرشخص شعوری طور پر نا پا کی کی پہچان رکھتا اور اِسے دور کرتا ہے ۔ یہ عارضی طور پر پاک صفائی کا عا لمی ذریعہ ہے ۔
یہ خود آ گا ہی بعض مذہبی اظہا ر میں پا ئی جا نے کی و جہ صفا ئی کی قد یم کہا و ت کےمطا ب
با ضا بطہ نقطہ نظر کے سا تھ ایک ما و را ئی حقیقت کے احسا س کے متو جہ ہو نے کی طر ف رو یہ دیند ار ی ہے۔ تا ہم یہ کہناکہ اس با ہمی تعلق کی طبعی حالت میں مُجر ب نما ئندہ کے طور پر الٰہی نا خو شی اور عدم اطمینا ن سے نمٹنا ہے۔ جو غسل کے لا متنا ہی چکر کی سر گر میوں میں
مو زوں طو ر پر پاک اور مقد س ہو نے میں نا کا م ہیں۔ جن میں وہ مختصر صا ف رہنے میں با ر با ر نہا نا دھو نا
شا مل ہے۔
اس طر ح سے ظا ہر کہ اس پو ری تکرا ر میں انسا نی دلو ں کی آ لو دگی کے خا تمہ میں نا پا ک دل کو پا ک بنا نے کے لیے کسی کی ضر ور ت ہے۔ اپنی خو د شنا خت کے نا قابلِ پہنچ حصے تک پہنچنے کے قا بل ہو نے کے لیے حتمی معنی کو ہٹا یا نہیں جا سکتا ۔ ویسے بھی حقیقی عملی حفظا ن صحت کے کچھ فو ا ئد غسل اور دھو نے کے ہیں۔ لیکن شا ید ان کی اصلیت مخلص ہو اور ظا ہر اً حکمت کی ایک شکل دکھا ئی دے لیکن سطحی جلدکے گہرے علا ج کے ذر یعے فر د کی دا خلی اور خا ر جی پہلووں کے درمیان ایک بر اہ ِ را ست انجمن کے مو اد میں دائرہ روح سے جسما نی طور پر نا اہلی کی سطح سے آ گے لو گوں کی روح کو حاصل کر نا ہے۔
ربی پیشوا اِس طرزِ عمل پر یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
متی 1:15-2، 17:11 -20
اُس وقت فریسیوں اور فقہیوں نے یروشیلم سے یسوع کے پا س آکرکہا کہ تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھاناکھاتے وقت ہا تھ نہیں دھوتے۔
جو چیز منہ میں جا تی ہے وہ آدمی کو نا پاک نہیں کرتی مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو نا پا ک کرتی ہے۔
کیانہیں سمجھتے کہ جو کچھ منہ میں جا تا ہے وہ پیٹ میں پڑتا اور مزبلہ میں پھنکا جا تا ہے مگر جو با تیں منہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں اور وہی آدمی کو نا پا ک کرتی ہیں کیو نکہ بُرے خیال خونریزیاں ، زنا کا ریاں ،چوریاں ، جھوٹی گوائیاں، بدگو ئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں یہی با تیں ہیں جو آدمی کو نا پا ک کرتی ہیں مگر بغیر ہا تھ دھوئے کھا نا کھانااآدمی کو نا پا ک نہیں کرتا ۔
انسانی نجاست کے علاوہ اِس معاملے کے دوسرے پہلو نمایا ں طور پر احساس اورجرم اور شرم ان اخلاقی ناکامیوں سے پیچھے رہ کر گندگی کو دورکرنے کے لئے گہری وصولی کی تفہیم کے ساتھ نمٹتےہیں ۔

شیکسپئیر کے ڈرا ے ”آ وٹ ۔ ڈیم سپا ٹ” کی یا د دلا تا ہے جس میں با د شا ہ ڈیکن کی
مو ت پر لیڈ ی میکبت کے کر دا ر کے با رے میں جہاں اس کے ہا تھوں پر سے گنا ہ
آ لو دہ خو نر یزی کو دور کر نے کی ضرور ت تھی۔
احتراماً اپنے اقدامات کے ذریعے اِن رسوما ت کو انجام دے کر بدعت کے بیان کو تسلیم کرنے کا اقرارایک بالو اسطہ طریقہ بن جا تاہے جوغسل کا انسانی صلاحیت اور ذاتی کوشش کے مطابق کسی نہ کسی طرح پراسرارکام بن جا تا ہے ۔جو
کا فی اچھے طریقے سے جبری ڈرائیوکے ساتھ اخلاقی نا کا میوں کو صاف بنا دیتا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ یہ اپنے شعور ۔ خو ا ہش ۔ تقویٰ اور جو ش سے قطع نظر قا بلیت کا مظاہر ہ کر نے میں نا کا م رہے۔ محدود ذرائع کے ذر یعے ان معا ملا ت کی تو ثیق یا
مصا لحت کی تد فین کے کا فی اسبا ب ہیں۔ اور مطمئین کر نے کے لیے انسا نی
صلا حیتوں کے انحصار سے کسی حد تک ان مختلف نظریا ت کی طر ف حما یت اور قبو لیت حاصل کرنے کی طر ف رجو ع ہو نے کی ابتدا ہے۔ یہا ں تک کہ یہ سب کسی نہ کسی طر ح اس وقت ممکن تھا۔ جب ان کی حیثیت یا نا پا کی کی حالت کو بر ی الزمہ کر دیا
جا ئے اور اس نشان کو جو دل پر پکا چھوڑا گیا کس در جہ سے صا ف کیا جا ئے گا جس پر
ما ضی اور مستقبل دو نوں اعمال سے مو ت کے سا تھ روح کا رنگ کیا ہے جو اس تنا ز عہ کے حل کر نے میں ناکا م ہونے وا لوں کے لیے مستقبل کے آ سنن احسا س کے سا تھ نشا ند ہی کے طورپر مقدس خدا کے معیا ر کی خلا ف ور زی ہے یہ قطعاً حقیقی شعوری
احسا س ہے جو تمام بنی نو ع انسان میں مو جو د ہے۔

16-14:2رومیوں
چنا نچہ وہ یہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہو ئی دکھاتی ہیں اور ان کا دل بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے اور ان کے با ہمی خیالات یاتو ان پر الزام لگاتے ہیں یا ان کو معذور رکھتےہیں جس روز خُدامیری خوشخبری کے مطابق یسوع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پو شیدہ با توں کا انصاف کرےگا ۔
بنی نوح انسان خیالی مذہبی مکالمات یا نظریات کے قیام یا تخلیق کی کشیدگی کے ساتھ نمٹنےکے لئے جدوجہدکر رہا ہے ۔یہ ایک دہکتی ہو ئی پگڈنڈی کی طرح روشن خیالی کی جا نب
جا تے ہو ئے حل تلاش کررہا ہے ۔ جبکہ مخالف یزدنی منوروگی کی دشمنی سے دھوکا کھا رہا ہے ۔ جو بیرونی منصوبہ کی تلاش میں ذاتی سچی لگن کی ضرورت کو چھوڑ نے کا انکار کر رہا ہے ۔ایساعقیدہ کہیں اور رہنمائی نہیں کرتا ۔نفسا تی نظریہ کے مطابق کمزورچاہ کے شخص میں اعصاب دم توڑدیتے ہیں اسی طرح ایمان کی زمین پا نے کے لئے مذہب ایک راستہ بنتاہے ۔بڑی دلچسپی کی با ت ہے کہ زندگی گزارنے اور اپنے معا ملات سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرا راستہ خالق سے ملتا ہے ۔
دیگر مذہبی نقطہ نظر کے بر عکس اس بحران کے جو ا ب میں ، میں یسو ع کی ذا ت سے حل تجو یز کر نا چا ہوں گا۔ انسا نی کا و ش سے خدا تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ بلکہ خدا کے تعا قب میں انسا نی ذا تی پا کیز گی اور طہا ر ت کی قو ت یا اصلا حا ت سے ممکن نہیں بلکہ یہ مفت تحفہ خدا اور پا ک رو ح کی ر فا قت سے ملتا ہے جو ہما رے لیے ممکن نہ تھا۔
5:3ططس
تو اُس نے ہم کو نجا ت دی مگر راستبازی کے کا موں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اورروح القدس کے وسیلہ سے ۔
23:6رومیوں
کیونکہ گنا ہ کی مزدوری موت ہے مگر خُداکی بخشش ہمارے خُداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے ۔

9-8:2افسیوں
کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے ۔اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خُداکی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے تا کہ کوئی فخر نہ کرے۔
1

7:1 یوحنا

لیکن اگر ہم نور میں چلیں جس طرح کہ وہ نور میں ہے ۔تو ہما ری آپس میں شراکت ہے ۔اوراس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تما م گنا ہوں سے پا ک کرتاہے ۔

1
9:1یو حنا
اگر اپنے گناہوں کا اقرارکریں تو وہ ہما ر ےگناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری نا راستی سے پا ک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔
آپ شاید یہ ماننےپر اعتراض کریں کہ پا نی کے بپتسمہ سے پاک ہونے کاعنصرمسیحت میں دوسرے مذہبی اظہار سے مختلف نہیں ،میں اس با ت سے اتفاق کرونگا ۔ کچھ کےلئے تو یہ محض ایک غسل کے علاوہ کچھ نہیں جو جو ہر میں نا پاک ایمانداروں کے طورپر کلیسیاکے ساتھ شناخت کی التواکےطور پر چل رہےہیں ایمان کے مرکزی دائرے میں سچا بپتسمہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر کفارہ کے شرعی طو ر پر تمام ایمانداروں کو پا ک کرتا اورراستبا ز قراردیتاہے ۔جو ایک ظاہری نشان یا علا مت یسوع کی کامل اور قیمتی زندگی کے خون سے سودمندہے ۔اس طرح پا نی کا بپتسمہ حقیقت کا گواہ یا ثبو ت ہے جو ہا ئیڈروجن یا آکسیجن کے عناصر سےملے پا نی سے نہیں ۔ بلکہ یہ بچت یسوع کے اور پا ک روح کے زندگی کے پا نی کی طرف سے ثبوت کے طورپر رہتاہے ۔
روح القدس میں رہنے کا نجات کا یہ اچھاتحفہ خو د خُدا کا ہے ۔
جن کا انسانی بپتسمہ دینے کی گہری کوششوں کے ذریعے قیام ممکن نہیں ۔چنا نچہ پا نی کا بپتسمہ اِس گہری تبدیلی کے طورپر خُدا کی قوت کی آسمانی حقیقت کے با رے میں ایک جھلک بن جا تا ہے ۔انسان کو نئی زندگی دیتے ہو ئے انسان کی مرضی یا اصل سے پیداہونا نہیں بلکہ خُدا کی ہدایت روح القدس کے ذریعے ایک بار پھر اُوپر سے پیداہونا ہے ۔
ہندواور بدھ مت کے لئے نئے جنم کے تصورمیں اِس طرح نئےسرےسےپیداہونے کے با رے میں الجھانہیں جا سکتا روح القدس میں مسیح کے کام
پر ایما ن یا اعتما د کے ذر یعے اس کی نجا ت کے اقدا م کی پیر وی کا آ غا زہے۔
27-25:36 کلام میں عبر انی پیغمبر حز قی ایل
کے مطا بق اسرا ئیلی کے مستقبل میں کفا رہ کی بنیا د اس حقیقت پر مبنی ہے۔
27-25:36حز قی ایل
تب تم پر صا ف پا نی چھڑ کو ں گا ور تم پا ک صا ف ہو گے اور میں تم کو تمہا ری تما م گند گی سے اور تمہا رے سب بتوں سے پا ک کروں گا اور میں تم کو نیا دل بخشوں گا اور نئی روح تمہارے با طن میں ڈا لوں گا اورتمہا رے جسم میں سے سنگین دل کو نکا ل ڈا لوں گا اور گو شتین دل تم کو عنا یت کر وں گا اورمیں اپنی روح تمہا رے با طن میں ڈا لوں گا اور تم سے اپنے آ ئین کی
پیر وی کرا وں گا اور تم میرے احکا م پر عمل کر و گے اور ان کو بجا لا وگے ۔
ربی پیشوا نے عید خیا م منا نے یا سلکو ٹ کے دوران میں فر ما یا۔
39-37:7 یوحنا
پھرعید کے آ خر ی دن جو خا ص دن ہے یسو ع کھڑ ا ہو ا اور پکا ر کر کہا اگر کو ئی پیا سا ہو تو میرے پا س آ کر پئے جو مجھ پر ایما ن لا ئے گا اس کے اند ر سے جیسا کہ کتا ب مقدس میں آیا ہے ۔زند گی کے پا نی کی ند یاں جا ری ہو ں گئی لیکن اس نے یہ با ت اس روح کی با بت کہی جسے وہ پا نے کو تھے جو اس پر ایما ن لا ئے کیو نکہ روح اب تک نا زل نہ ہو ا تھا اس لیے کہ یسو ع ابھی اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا۔
قد یم یہودیوں کا سب سے بہتر اطمینا ن خدا کے لیے اپنی مذہبی رسوما ت کی ادا ئیگی تھا لیکن عبرا نیوں دس با ب میں ان کے با رے میں یوں لکھا ہے کہ صر ف ان کے لیے ایک علا مت کے طور پر تھیں نہ کہ سچا ئی کے طور پر جبکہ یسو ع کی قر با نی ہما رے گنا ہوں کے دھو نے کے لیے ایک مر تبہ اور سا رے لو گوں کے لیے تھی۔ وہ خدا کا بر ہ قر بانی کے لیے دنیا کے گنا ہ
اُ ٹھا لے گیا اور قربا ن ہو ا۔
تو را ت کے انکا ر کے طور پر لکھے ہو ئے وعدہ کی خلا ف ور زی کے با رے میں آ ج یہودیوں کو ان مذہبی رسوما ت میں نما ز رو ز ہ اور اچھے اعما ل میں مطمئین ہو نے کے لیے قر با نی دینے کی ضر ور ت نہیں ۔
احبا ر 11:17
کیو نکہ جسم کی جا ن خون میں ہے اور میں نے مذبح پر تمہا ری جا نوں کے کفا رہ کے لئے اُسے تم کو دئیا ہے کہ اُس سے تمہا ری جا نوں کے لئے کفا رہ ہو کیو نکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفا رہ دیتا ہے ۔
اب کو ئی با ت نہیں کہ آپ نے کتنے شر عی احکا م انجا م دیتے ہیں ۔اور ان میں کیا ضا من کہ آپ نے کا فی اچھے اعما ل کئے اور آپ کے گناہ معا ف ہو گئے کیو نکہ یسعیاہ 53میں مسیحا کے ذریعے خُدا کی رحمت اور فضل سے اُس عا رضی قربا نی سے الگ تمہا رے گنا ہ معا ف
ہو ئے۔اسی طرح میرے مسلمان دوست اس پیش گو ئی کے اندر نا کا می کی کچھ جھلک کے طور پر یُسوع کی موت کا انکار کر تے ہیں جبکہ خُدا کے جلال کے منصو بہ کو مسیحا کے ذریعے جس نے صلیب پر پرُ مسرت مقصد اور مو قع کے لئے فخر سے شر مندگی بر داشت کی ۔ ابراہمی قسم کے متبادل کفا رہ فراہم کر نے کو مکمل طور پر چھوڑ جا تے ہیں ۔
عبرا نیوں2:12، 2: 9-18
مسیح کی مصلوبیت اور اسلام
آسمانی باپ اِس پا نی کی طرف کہ یسو ع تمہیں زند گی کا پا نی دے سکتا ہے ، تمہا ری رہنما ئی کرتا ہے جو تمہا ری روح کو مکمل طور پر مطمین اور تروتازہ کر سکتا ہے تا کہ تم اِس میں سے پیو ۔
میرے دوستوں میں تمہا ری حو صلہ افزائی کر تا ہوں کہ جھوٹے مذہبوں ، فرقوں اور
نظریا ت سے نہیں جو پیا سا رہنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ سا مر ی عو ر ت کی طرح اپنی روحا نی پیا س کو بجھا نے کے لئے اُس سے زندگی کا پا نی ما نگے ۔

یو حنا 4 :10، 13-14
یسوع نے جو اب میں اُس سے کہا اگر تو خُدا کی بخشش کو جا نتی اور یہ بھی جا نتی کہ وہ کو ن ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پا نی پلا تو تُو اُس سے ما نگتی اور وہ تجھے زندگی کا پا نی دیتا۔
یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پا نی میں پیتا ہےوہ پھرپیا سا نہ ہو گا ۔مگر جو کو ئی اُس پا نی میں سے پیے گا جو میں اِسے دونگا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا ۔بلکہ جو پا نی میں اُسے دونگا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جا ئے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جا ری رہے گا ۔
آ خر میں یسوع آ پ کو بلا تا ہے۔
متی 11: 28-30
اے محنت اُٹھا نے والو اور بو جھ سے دبے ہو ئے لو گو سب میرے پا س آومیں تم کو آرام دونگا میر ا جو ا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو کیو نکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تُو
تمہا ری جا نیں آرام پا ئیں گی کیو نکہ میر ا جو ا ملا ئم ہے اور میرابو جھ ہلکا ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Ritual cleansing and purification

قرآن بائبل کی حمایت کرتا ہے

Saturday, January 10th, 2015

قرآن ، توریت ، زبور اور انجیل کے الہی مکاشفہ کی حمایت کرتا ہے، جبکہ عصر حاضر کے مسلمان کے عقیدہ کا دعوی ہے کہ بائبل درست نہیں اور یہ بھروسہ کے لائق نہیں ۔ بے شک اس کا ثبوت نہیں ملا اور کئی رائے میں یہ محض ایک بیان ہے جو اسلام کے روحانی مالعج میں گردش کر رہا ہے۔
اس قسم کے خیال کی ایک وجہ بائبل کا مختلف اقسام میں ملنا ہے جو منطقی طور پر درست نہیں ہو سکتی۔ بائبل کی مختلف اقسام ہونے کی وجہ وسیع مقدار میں تحریری ثبوت کا ملتا ہے۔
یونانی تحریروں کی اب تک تقریباً چھ ہزار نقول وجود میں آگئی ہیں جن میں زیادہ تحریری ثبوت ہیں۔ جبکہ قدیم دور کے قدیم ادب کے کچھ ٹکڑے بھی ملے۔
آج ہمارے پاس دستاویزات کو شائع کرنے کی سہولت کے ساتھ ساتھ انہیں متعارف کروانےاور ان کی حفاظت اور اشتراک کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ بائبل کے دور میں تحریریں مہنگی اور چند ایک تھیں۔ چنانچہ کلام کے تحفظ کی ضرورت کے ساتھ اس کی فوری طلب نے نقول کی ضرورت اور گردش کو عام بنا دیا۔ اہم کتابیں قوانین اور تکنیک سے تیار کیں اور اس کی کاپیاں دستیاب یا متعارف کر دیں۔ ایسا اصلی قلمی تحریری مواد کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اس لیے کہ یہودی اس کی پیروی کریں۔ ان
کا پیوں کا ایک فائدہ صداقت کی توثیق کے طور پر موازنہ اور متن کو درست بناناہے۔
آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ قبول شدہ مسودات کے اصل مواد یا متن تبدیلی کے بغیر تضادات کم سے کم دیکھیں جا سکتے ہیں۔ کیا ہی قابل ذکر ہے کہ جب نئے عہد نامہ کو تباہ کر دیا گیا تو قدیم چرچ کے بزرگوں سے اقتباس لے کر یہ تقریباً دوبارہ تعمیر کیا گیا جن کی خدمات سے کلام کی صداقت کے ساتھ بھروسے کے ثبوت کو شواہد کے طور پر پانے میں مدد ملی۔
اس کے علاوہ نئے عہد نامہ کے حق میں اصل قلمی اقتباس اور پرانی موجودہ نقول کے درمیان تقریباً 100 سے 250 سال کی نسبتاً مختصر مدت ہے۔
ادب کے دیگر قدیم ٹکڑوں کے مقابلے میں یہ نسبتاً مختصر مدت ہے جیسے کسر گالک کی جنگوں میں تقریباً 1000 سال کے وقت کا فرق ہے۔
بائبل کی صداقت کی توثیق کا دوسرا ذریعہ بحیرہ مردار سکرال کے ساتھ آیا جو 1940ء میں قمران کے پیچھے سے ملا۔
اس وقت تک پرانے عہد نامے کی سب سے پرانی نقل مسورہ متن ہے۔ جو تقریباً 900 عیسوی تک پہنچتی ہے ۔ جب بحیرہ مردار سکرال کا جو ان تحریروں سے تقریباً 1000 سال پہلے تھا موازنہ کریں تو کوئی اہم فرق نظر نہیں آتا بائبل کی حدود قیود کا مدنظر رکھتے ہوئے مٹینگز کا انعقاد کیا گیا تاکہ کرپشن اور بدعت سے کلام کو بچایا جائے۔ کیونکہ ادب کی دیگر جعلی اقسام گردش کر رہی تھیں۔
اور چرچ کی قیاد ت میں درست عقیدہ اور کینن متعارف کیا۔ جن کا کلام کو مقدس بتانے کے لیے انعقاد کیا گیا۔

325
عیسوی میں مسیحیوں کی ایک کونسل نیشیا جبکہ 90 عیسوی میں یہودی کی کونس حمنیا میں ترتیب دی گئی۔
بائبل کے مختلف اقسام میں ہونے کی وجہ کلام کو لوگوں کی عام زبان میں حاصل کرنے کے عملی مقصد کا ارادہ تھا۔
شاگردوں کو ساری دنیا میں جا کر منادی کرنے کے بارے میں کہا اور اس معاملے کے موثر حل کا یہ ہی ایک راستہ تھا۔ بائبل کے ترجمہ کے ذریعے اس میں تبدیلی کی کوئی سازش نہ تھی ۔ میں تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی بائبل کو ان کی اصلی زبانوں میں عبرانی ، ارامی اور یونانی کے ساتھ میرے حوالہ کرے اور توقع کرے کہ میں ان کو سمجھ لوں خواہ میں ان قدیم زبانوں کا مطالعہ کروں۔ میں ثقافتی طور پر انگلش سوچنے میں ماہر ہوں تو میں اسی میں تشریح کروں گا۔
بائبل کی طرح قرآن بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کر رہا ہے جو ادبی تنقید کے قوانین سے آئے ہیں۔
اب نہ تو یہ آسمان سے گرا اور نہ ہی اللہ کی انگلی سے نقش ہو رہا تھا۔ اگر میں کہوں گا کہ محمد نے بائبل کے خیالات کے حوالے یہودیوں اور مسیحیوں دونوں کے ثانوی اثر و رسوخ کے ذریعے حاصل کئے جو ان اصل عبارتوں کے بانی تھے۔
اگر تاریخ میں وقت کی وجہ سے بائبل بدل گئی تو پھر معاملے کی حقیقت محمد کو کیسے موصول ہوئی۔ جبکہ وہ مسیحی اور یہودی اثروسوخ پر انحصار کرتا تھا۔ بائبل اسلام کی آمد سے پہلے اچھے متن کی نقول پر مشتمل ہے۔ پس مجھے اس میں بحث کا معاملہ نظر نہیں آتا۔ اگر مسیحیوں اور یہودیوں نے بائبل کے ساتھ بد سلوکی کی یا اسے خراب کیا ہوتا تو پھر اللہ نے مسلمانوں کو پہلے حاکمیت کا مکاشفہ کیوں نہ دیا میں جانتا ہوں یہ دلائل مضحکہ خیز ہیں لیکن میں ان بے بنیاد دلائل میں نقائص کے منطقی نتیجہ کو باہر لا کر آپ کو دیکھانا چاہتا تھا۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

The Quran Supports the Bible

اسلام اور کفر

Saturday, January 10th, 2015

میں پہلے بھی اسلام سے پہلے کےدور میں ایک سے زیادہ خداؤں پر ایمان اور بت پرستی جیسے عناصر کے اسلام پر اثرات کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ جو کہ مندرجہ ذیل مضامین میں موجود ہے۔
The Crescent Moon and Star of Islam
کیا کعبہ مقدس ہے ؟
اسی طرح ایک اور حوالہ جو کہ اسلام اور لادینیت کے بارے میں ہے اس کو “شطانی آیات” کہاگیا ہے جو کہ غالبا محمد نے تلاوت کی تھیں مندرجہ ذیل سورہ 19:5320 یہ تاریخی لحاظ سے اسلام کے ابتدائی سالوں کے ریکارڈ میں سے لی گئی تھیں ان میں سے ابن سعد اور انطیاری جیسے متند افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے محمد کی سوانح حیات لکھی ہے۔
تا ہم یہ قصہ دراصل مکہ کے رہنے والے باشندوں کو ان کی اس وقت کی دیویوں الات ،الااوضی اور منات، جن کو دوسرے لفظوں میں اللہ کی تین بیٹیاں کہا گیا جن کو اس لیے بھیجا گیا کہ وہ محمد کی مدد کریں اپنے قبیلہ کے لوگوں اور ہمسایوں کو اسلام قبول کرنے پر قائل کرنے کے لیے لیکن بعد میں ان آیات کوقرآن سے نکال دیا گیااور کہا گیا کہ یہ شاید شطان کی طرف سے کوئی آزمایش تھی۔اس پر جبرائیل نے محمد کی سرزنش بھی کی کہ انہوں نے قرآن کی آیات52:2253 کے معاملے میں بے ایمانی کیوں کی ۔
اور ساتھ میں یہ فرضی دیوتاؤں کے نام کی تشہیربھی کی 21:53 -22
میرے خیال میں خلد صہ میں یہ تمام نکات اور ان کی حقیقت کی سمجھ آتی ہے۔ کہ کس طرح محمد نے مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے شمال میں یروشلیم کی طرف رخ کر کے نماز شروع کی۔اور اس طرح مکہ کی جانب ان کی پشت ہوجاتی تھی۔
اور بعد ازاں اس بات سے باز آگئے کیونکہ یہودیوں نے ان کے پیغام کو رد کردیا تھا اور ان کو مدینہ سے باہر نکال دیا گیاتھا۔
الفرض اس تمام معاملہ کو اگر مجتمع کیاجائے تو اسلام کا شہادت کے بارے میں جو مرکزی نظریہ اور ایک خدا کی ذات پر پختہ یقین اور محمد کا ایک سچے نبی کی حثیت سے کردار اور اسما جو کہ محمد کو غلطیوں سے باز رکھنے کے لیے مدد گار کے طور پر فراہم کیے تھے۔ اس معاملے میں یہ جبرایئل کی طرف سے ایک مکمل زبانی پیغام کے طور پر ثابت نہ ہو سکا کیونکہ یہ اللہ کے کہے ہوئے الفاظ ثابت نہ ہوئے تھے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد کی باقی ماندہ وحیوں کے بارے میں بھی شک کا اظہار کیا جاسکتاہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ محض ایک شخصی تصویر کشی یا شطان کی طرف سے اکسائے جانے کا بتیجہ ہو۔
آخر میں ہوسکتا ہے کہ یہ محمد کے بارے میں ایک شرمندگی بھری اور خوشامد سے پاک رائے ہو جو کہ محمد کو ایک ہر دلعزیز اور باوقار بنی کی حثییت سے بیان نہ کرتا ہو لیکن اس کو صرف ایک رائے نہ سمجھنا چاہیے بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے ، اس بات سے قطع نظر کہ مسلمانوں کے اس بارے میں متضاد بیانات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس موقع پر ان کی ذات کے بارے میں بالکل نفی موجود ہے۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Paganism and Islam

محمد اور معجزات

Saturday, January 10th, 2015

یہ قرآن بتاتا ہے کہ وہ واحد معجزہ جو محمد نے دکھایا یہ تھا کہ اس نے قرآن کی وحی کو پڑھا تھا، سورہ

52-49:29

اور 90:17-93 میں نے قرآن کےبارے میں مزید لکھا ہے حوالہ
کیا قرآن مقدس ہے ؟
اگر یہ قرآنی عبارتیں سچ تھیں تو پھر یہ دوسرے اسلامی ادب سے متصام ہیں جسا کہ سید بخاری حدیث میں بیان ہے کہ محمد نے ایک بہت غیر طبعی اور غیر مرئی معجزہ دکھایا کہ ایک روتے ہوئے درخت کے تنے پر ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دی۔783:4اور مکہ کے لوگوں کو یہ معجزہ دکھایا کہ حیرام پہاڑ کے درمیان چاند کو دوٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔208:5
یقنیا یہ صرف افسانوی قصے ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور یہ ناگ حمادی عبارتوں کو طرح جو کہ فرضی اور افسانوں قسم کی کہانیوں کو بیان کرتا ہےجو کہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ کچھ مسلمان تو اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ وہ اس قسم کے فرضی مسیحی ادب کو ثبوت کے طور پر استعمال کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق مسیح کے دکھوں کا انکار کرتے ہیں جو کہ اس کی تکلیف دہ لیکن عالی شان موت نفی کرتا ہے۔ میں نے ایک اور مضمون لکھا ہے مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں جس میں اے تاریخی واقعے کی بائبل مقدس میں سے گواہی اور ثبوت بھی دیا ہے۔
مسیح کی مصلوبیت اور اسلام

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حدیث جیسا کہ ناگ حمادی اور محمد مسیحکی زندگی کا بہت سالوں بعد آئے اس لیے ان کو بہت ساوقت مل گیا کہ وہ مسیح کی زندگی کے بارے میں اس قسم کے فرضی بیانات کوگھڑ کر بتاسکیں

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Muhammad and Miracles

Holman QuickSource Guide to Christian Apologetics, copyright 2006 by Doug Powell, ”Reprinted and used by permission.”

یسوع آخری نبی ہے

Saturday, January 10th, 2015

حال ہی میں میرے ایک دوست نےمجھےمحمدکےآخری اورحتمی نبی ہونے کےبارے میں بتایا۔اس کے مطابق یہ عقیدہ عبرانی صحیفوں سے آیااوراستثناہ ۱۵:۱۸میں دیکھاجاسکتاہے۔
اس کلام کا ارادہ اسلام کے بانی میں اپنی تکمیل کا نہ تھاجو عبرانیوں کے لیےغیر مذہب اور جھوٹےدیوتایا بت کی نمائیدگی کرتا ہو۔یہ پیشن گوئی غلط استعمال کی گئی تھی۔
موسٰیٰ نے تو یہ الفاظ عبرانیوں کے لیے کہےتھےاور یہ عرضی ایک عبرانی ساتھی کی جانب سےعبرانیوں کو دی گٰئی تھی۔تورات اسرائیلی لوگوں کے ساتھ عہدسے شروع ہوئی اور اعمال ۲۲:۳میں پطر س کےمطابق اور اعمال ۳۷:۷میں ستفنس کے مطابق اس کی تکمیل آخری پیغمبر یسوع میں ہوئی۔
موسٰی نے کہا اسرائیل کے بچوں خدا تمہارے بھائیوں میںسے میری مانند ایک نبی برپا کریگا۔اس متن کی تفسیر میں لفظ بھائیوں ایک اہم نقطہ ہےجسے عبرانی ورثےکے لوگوں پر لاگو کیا گیا۔اگرچہ عرب نسل اور عبرانیوں کے درمیان آبائی تعلقات ہیں۔لیکن یہ صحیفہ صاف طور پر اسرائیل اور کتاب کے لوگوں پر لاگو ہوتاہے۔
مسحیوں نے اس نوشتہ کے مقدس متن کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے اسکی تحریف یا اسے غلط بیان نہیں کیا۔
چونکہ تورات یہودیت کا مرکز ہےجسے یسوع کو نبی کا عنوان دینے میں کوئی ہمدردی نہیں۔آپ اس بات پر اتفاق کرے گے کہ یہودیت کے مرکزی دھارے میں یسوع کے عظیم نبی ہونے پر انکار ہو رہا ہے اور جبکہ اسلام کے اس متن کو یوں استعمال کرنے پر اتفاق نہیں کریں گے آپ اسرائیل کی پیغمبرانہ وزارت کے مطالعہ میں یہودی فرقہ کی جانب سے بنیادی ردِعمل کی طور پراکثر استرداد دیکھ سکیں گے
عظیم صحیفوں میں سے ایک یسعیاہ نبی کی معرفت ہےجس میں یسوع کی آمدکےبارے میں بتایا گیا ہے۔یسعیاہ میں وہ یسوع کو مصیبت ذدہ خادم کےطور پر بتاتا ہے۔وہ آدمیوں میں حقیرومردودجبکہ خدا کے نزدیک مقبول تھا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ آپ یسوع کی آخری اور حتمی حیثیت جس میں کلام کے مقصد کی حتمی تکمیل ہوتی ہے انکار نہ کرے۔
کیونکہ وراثت کی شناخت اور یسوع کی شخصیت میں آخریت کی تکمیل کو متعارف کرانے میں پیغمبرانہ آواز کی خدمت ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا کا کلام سنتے اور قبول کرتے ہے۔
عبرانیوں 1:1-2
جس کے کان ہو وہ سنےکہ خدا کا روح کیا فرمارہاہے۔کیا تم خدا کی پیغمبرانہ آواز سن رہے ہو؟

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Jesus the Last Prophet

یسوع خدا کا بیٹا ہے

Saturday, January 10th, 2015

اسلام بتاتا ہے کہ خدا کا کوئی بیٹا نہیں ۔ میں اس نقطہ کی بنیاد پر آپ سے اتفاق کرونگا۔ کیونکہ یسوع کی پیدائش منفرد اور معجزانہ تھی۔ میں مانتا ہوں کہ خدا نے رواج کے مطابق جنسی تعلقات سے پیدا نہیں کیا۔ یہ عقیدہ پیگن میتھالوجی پر مرکوز ہے ان کے بے شمار فرقے اس کے متعلق سیکھاتے ہیں۔
ڈاکٹر مائیکل برون سامی زبانوں کے شعبے میں ایک ماہر ہے۔ جو بائبل اور یہودیوں کی ثقافت کی اصلی زبان ہے۔ اُس نے اس تصورکی نوعیت پر تبصرہ کیا۔ شروع میں ہمیں یہ بات یاد رکھتی ہےکہ اکیسویں صدی میں دماغ قدیم عبرانی خیال کے خطوط پر نہیں سوچتا۔
دراصل عبرانیوں کے کلام میں لفظ خدا کا بیٹا کئی بار استعمال ہوا جسے خد ا نے اپنے بیٹے کے طور پر اسرائیل بادشاہوں اور فرشتوں کے لیے کہا۔ یسوع مسیحا ہے ۔چنانچہ وہ اس عنوان کا حتمی نمائندہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کی اولاد بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خدا ہے۔ آخر اسے آسمانی میزبانوں اور فرشتوں سے اوپر بلند کیا گیا ہے۔ اسنا دینے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہے کہ اسے بیٹے کا خطاب دیا جائے۔ بائبل میں عبرانی لفظ بیٹے کے لیے “بین” ارامی میں “بار” اور عربی میں ابن ہے۔ لفظ بیٹے کے استعمال کو سمجھنے کے لیے اسے لغوی اولاد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
یا پھر استعار میں کہا جا سکتا ہے۔ نبیوں کے بیٹے کا مطلب ہے نبیوں کے شاگرد۔ جب یہ کسی بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے الہی گود لیا بیٹا۔ جیسا کہ 2 سیموئیل 14:7 میں لکھا ہے۔ ” اور میں اسکا باپ ہونگا اور وہ میرا بیٹا ہو گا اگر وہ خطا کرے تو میں اسے آدمیوں کی لاٹھی اور بنی آدم کے تازیانوں سے تنبیہ کروں گا۔ اور خروج4: 23-22 میں اسرائیل کی قوم کے لیے بھی یہ ہی کہا گیا۔ جہاں لکھا ہے “اور تو فرعون سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پہلوٹھا ہے اور میں تجھے کہہ چکا ہوں کہ میرے بیٹے کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کرے اور تو نے اب تک اسے جانےدینے سے انکار کیا ہے سو دیکھ میں تیرے بیٹے بلکہ تیرے پہلوٹھے کو مار ڈالوں گا۔ جبکہ بیٹے کا دوسرا مطلب ان کے لیے ہے جو ایک ہی جماعت کے ہوں جیسے فرشتے۔ یہ کہتے ہوئے میرا یہ مطلب نہیں کہ فرشتے خدا ہیں لیکن اسی طرح انہیں “بینی ایلوہیم” یا خدا کا بیٹے کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ اسرائیل کے فرمانبردار لوگوں کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے۔ ہوسیع 10:1 جہاں لکھا ہے “تو بھی بنی اسرائیل دریا کی ریت کی مانند بے شمار و بے قیاس ہوں گے اور جہاں ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم میرے لوگ نہیں ہو زندہ خد ا کے فرزند کہلائیں گے”۔
آخر میں اس لفظ کو عنوان کے طور پر یا مخصوص مشن کے طور پر دیکھتے ہیں پس یسوع مسیحا ہوتے ہوئے اس کردار پر پورا اُترتا ہے۔ حتمی طور پر اسکا خدا کے بیٹے کے طور پر شمار کیا گیا۔ نتیجتاً “باپ اور بیٹے” کی شرائط ایک جدید مادی ہم عصر نقطہ نظر بائبل کے برعکس مشابہ ہونے کے لیے ایک مجازی طریقہ ہوسکتی ہیں۔ پس اپنے تعصب یا عام استعمال کو قطع نظرکر کے یہ لفظ آپ کی ذاتی ثقافتی اظہار یا مقامی زبان کے حصہ کے طور پر قدیم بائبل کے دنیاوی جائزہ میں غلط طریقہ سے لاگو کیا جا سکتاہے۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Jesus is God’s Son

* Of special note regarding the title and term ‘Son of God’ , it is used in its most unique and supreme sense as a reference to the divinity of Jesus as the Christ in Mathew 28:16-20, John 5:16-27, and Hebrews 1.یسوع کی الوہیت اور اسلام-Urdu 

اسلام کا عورت کے بارے میں نظریہ

Saturday, January 10th, 2015

اسلام کا عورتوں کے بارے میں نکتہ نظر عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی معاشروں میں غالباً مختلف قوانین ہیں تاہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں عورتوں کو کسی حد تک زندگی میں ماتحت کردار دیا گیا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر جانبدار انہ ہے اور کچھ صورتوں میں عورتوں کے ساتھ غیر ضروری استحصال کے سلوک کی اجازت دیتا ہے۔
قرآن 34:4 میں عورتوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے انسانی فطرت کے مطابق اپنے جیون ساتھی کے ساتھ محبت بھرا رشتہ استوار کرنے کے لیے اعتبار کی فضا فراہم کرنا ضروری ہے ۔ جس کا مرکزی مقصد اپنے ساتھی کی حفاظت اور دیکھ بھال ہے۔ لہذا اس قسم کا اصلاحی عمل محبت کو کیسے ظاہر کر سکتا ہے؟ اگر یہی صورتحال ہے تو جب خاوند کوئی غلطی کرنے تو اس کو سدھارنے کے لیے کیا طریقہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ شوہر کی غلطی پر اس سے بھی بالکل ایسا ہی سلوک کیا جائے تا وقتیکہ وہ غلطی پر نہ ہو کیونکہ اخلاقی طور پر اسکو زیادہ برتری حاصل ہے؟
شاید اخلاقی لحاظ سے عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے حدیث میں یہ سمجھا گیا کہ عورتوں کو سدھارنے کی غرض سے ان پر سختی کی جائے۔ آخرکار حدیث کا یہ موقف ہے کہ اس نقطہ نظر کو پیش کیا جائے کہ عورتیں روحانی اور اخلاقی لحاظ سے پست ہیں اور برائی کی طرف جلد راغب ہو تی ہیں۔ . حدیث فرماتی ہے کہ عورتوں کی اقلیت آسمانی گھر پر قبضہ کے ساتھ جبکہ جہنم کی رہائش گاہ میں جانے والوں میں اکثریت ہیں مسلم،والیم. 4، حدیث 6597، صحفہ. 1432 اور مسلم،والیم. 4، حدیث 6600،صحفہ1432
اسلامی تصورات سرور یالطف کی اقدار پربھی مرکوز ہیں جو مردوں کی جنسی پرستی / جنسی خواہش کے گرد گھومتی ہیں ۔ خدا کا خوف رکھنے والے مسلم مرد کو جنت میں ایک دن سو کنواریوں کے ساتھ مباشرت کرنے کا لطف یا خوشی عطا کی گئی ہے۔ (سورہ 55) ۔ کیا عورتوں کی اقلیت کو جو اسے اپنا جنت کا گھر بناتی ہیں۔ ایسا ہی صلہ ملے گا؟ ایک بیوی جو پوری زندگی کیلئے شادی کے بندھن میں بندھی ہے یہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو کیسے عزت کی نگاہ سے دیکھ سکتی ہے کہ ایک دن اس کا شوہر جنت کے محل میں غیر عورتوں کی ساتھ جنسی سرور اور جنسی ہوس کی لذت کے ساتھ لطف اندوز ہو گا۔
اگر مستقبل میں جنت کی حوالے سے اس کا یہ مقصد ہے تو پھر اس زمینی مختصر زندگی میں بیوی کے ساتھ تعلق کے لیے اس کا کیا مقصد ہے؟ اگر وہ ابدی زںدگی میں جسمانی خوشی یا سرور سے لطف اٹھانے کے لیے راضی ہے تو کیا آپکو یقین ہے کہ اب آپ کے ساتھ اسکا تعلق اس مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ شاید ایک بار وہ ختم ہوجائے اور اس زندگی مین اپ سے مطمئن ہو تو پھر آپ کے پاس جنت میں اس کی پیروی کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہوگا۔ اب اس کی ضروریات دورسرے(دوسری عورتیں) پوری کریں گے۔
مزید برآں قرآن اور حدیث بیوی کی پرواہ کیے بغیر شوہر کی جنسی تشغی کیلئے مطالباتی نظریہ پیش کرتے ہیں (قرآن 2:223) شکتا المصابیح صفحہ 691 ، ترمذی ، بخاری والیم 7 ، حدیث 121 صفحہ 93 ) اس کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی تقاضوں میں مختلف اور جنسی عدم توازن پایا جاتا ہے جس میں لڑکیوں کے جنسی اعضا کو کاٹ دیا جاتا ہےکہ وہ جنسی خواہشات سے دور رہ سکیں ۔ یہاں اس مسئلے پر بحث کی جاسکتی ہے کہ کیا محمد نے تشدد کے ایسے واقعات کی ممانعت نہیں کی تھی جبکہ ابھی تک بعض ممالک میں ایسا کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں کے پاس جنس پرستی کے قانونی فارم ہیں جس کے تحت مردوں کے درمیان جنسی خواہش کی تشغی کے لیے عارضی شادی کی اجازت دی جاتی ہے۔
ایک اور چیز جو شاید اس فارم مین غیر واضح ہے تاہم کئی خرابیاں پیدا کرسکتی ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا ہے ۔ جو خاندانی نظام میں رہتے ہوئے معاشرتی مسائل پیدا کرے کا سسب بن سکتی ہے۔ اس ثقافتی تجربات کی بنیاد پر انسانیت پر ان کے بدترین اثرات کا احساس دلانے کیلئےکسی ما ہرِ سماجیات یا انسا نی اشتھنائی کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی معاشرے کیلئے اخلاقی اقدار یا قوانین بناتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس کے خلاف بحث کرے تا ہم تمام دنیا میں موجود انسانوں کی بنیادی ضروریات کی بات کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہےکہآپ اسلامی ثقافت کے جال میں پھنسے ہوں جہاں آپ اپنےآپکو قیدی اور تنہا یا بہت اداس محسوس کرتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے الگ کچھ نہیں جانتے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ کچھ عورتوں کو اسلام کے جرائم کی وجہ سے جسمانی اور جذباتی برائیوں کےذریعے سے شکار کیا جارہا ہے آپ ان حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یا پھر شاید آپ نے اسلامی ثقافت کے ساتھ خود کو منسلک کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو سکھایا گیا ہو کہ ان معاملات پر آپ کے ذہن میں کچھ نہیں آسکتا جس سے آپ پر آئندہ اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
حدیث کے مطابق عورتوں کے پاس ایک محدود یاکم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ اس نقطہ نظر سے عورت کی گواہی کوآدھا یعنی نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ کسی بات کا فیصلہ کرنے کے لیے محدود یعنی ناکافی ہے۔ جب لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے کے لیے ہدایت کی جائے کہ وہ کمتر ہیں تو پھر ان کو آسانی سے قابو میں کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مردانہ غالب مذہب سےآپ یہی حاصل کرتے ہیں جہاں سالمیت پر جسمانی طاقت حکمرانی کرتی ہے۔ بخاری والیم 3 ، حدیث 826 صفحہ 502۔
میں جانتی ہوں کہ بلاگ تلخ ہے اور مجھے امید ہے کہ میں نے اپنے کیس یا معاملے کوبراہ راست پہنچ یا رسائی کے ذریعے سے زیادہ بیان نہیں کیا۔ انصاف کے ساتھ میں اسلامی کلچر یا ثقافت کی انکسا ری کو سراہ لیتا ہے۔ پھر بھی اس کا اختتام عورتوں کو غلام بنا کر رکھنے کے معنوں کی وضاحت نہیں کرتاجوان کی انسانیت کو کم کردیتے ہیں۔
اے مردو میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ اسلام کے دعوے پر اور عورتوں کے ساتھ سلوک اور ان کے رویوں پر تنقیدی نظر ڈالو۔ حتی کہ اگر آپ ایسی ظالمانہ حرکات نہیں بھی کرتے پھر بھی ان اسلام کے پیروکاروں کی مختلف ذرائع سے جنہیں مقدس متن سمجھا جاتا ہے،حما یت کی جا تی ہے اور ان کی قد ر کی جا تی ہے ۔ یادر رکھیے یہ عورتیں ہماری مائیں ہیں جو ہمیں اس دنیا میں لائی ہیں اور جب ہم لاچار تھے تو انہوں نے ہمار ی دیکھ بھال اور نگہداشت کی۔ یہ عز ت و احترام کی حقدار ہیں۔ جو خدا نے ان کے بلند کردار کی بدولت انھیں دیا ہے۔
یعنی ہماری ذاتی دیکھ بھال اور ہمیں آدمی /مرد بنانے میں آپکو بتانا چاہتی ہوں کہ اسلام نے اپنے خدا تخلیق کیے ہوئے ہیں اور اگرچہ میں آپکی لگن کی قدر کرتا ہوں ۔ ایک مذہب میں پائے جانے والے دعوؤں کو چیلنج کرتا ہوں جن میں تباہی کا راستہ پایا جاتا ہے۔
بائبل میں خدا کے کردار کی بنیادی تعریف محبت ہے اور اسلام اس خدائی نظریےکے برعکس کھڑا ہے۔ خدا منصف ہے اور اسی طرح وہ رحیم ، مہربان ، نرم ، شفیق ، برداشت کرنے والا اور امن پسند ہے ۔ یہی خوبیاں شاید آپ اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہیں تاہم اس کے پیروکاروں میں اس کا ثبوت کہاں ہے؟
اگرچہ فنڈز کا ایک مختصر حصہ غریبوں کیلئے مختص کیا جاتا ہے تاہم عام طور پر آپ اسلامی انسانی حقوق کی تنظیمیں نہیں دیکھتے خاص طور پر دوسرے معاشروں کی طرف جوکہ بے دین یا کافروں کی فطرت خیال کی جاتی ہے۔ اسلام ایک روحانی مذہب نہیں بلکہ خوف اور دہشت کے غاصبانہ قبضے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ آپ کی پراوہ نہیں کرتا بلکہ اس کو اصل دلچسپی دنیاوی غلبہ ہے ۔ ہو سکتا ہے آپ ایک معتدل مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہوں اور اسلامی عقیدے اور پیروی کے بارے میں مختلف خیال رکھتے ہوں۔ یہ اسلام ہی ہے جو آپکے کردار کر آپکے اپنے لیے آزاد تصور کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر آپ یہ دعوی کریں کہ آپ اس قسم کے اسلامی نقطہ نظر کی پیروی نہیں کرتے تو پھر شاید آپ نام نہاد مسلمان ہیں اور لاشعوری طوپر پر آپ اپنے دل کی گہرائی میں کہیں جانتے ہیں کہ کچھ کمی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ خدا کی حقیقی محبت کا تجربہ کرنے کیلئے ایک کھلا دروازہ ہے۔
کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے یسوع مسیح کو بھیجا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
اب اے خواتین مجھے یقین ہے کہ آپ ان ذہنی صلاحیتوں کی مالک بن چکی ہیں۔ کہ آپ ایک سچی محبت کرنے والے خدا اور ایک گمراہ کرنے والے مذہب میں امتیاز کرسکتی ہیں۔
آخر میں میں دعا کرتی ہوں کہ میرے کچھ کہنے سےآپ کی عزت نفس کو دھچکا لگا ہو۔ میں نے یہ آپ کا دل دکھانے کیلئے نہیں کیا۔ اگرچہ میری یہ تقریر چیلنج کرتی ہے۔ لیکن میں نے یہ سب نفرت میں نہیں لکھا۔ میں آپکے لیے روحانی بہتری یا بھلائی چاہتا ہوں ۔ اور جب کبھی معاشرے میں قید ہوتے ہیں آپ معاشرتی حدود سے پرے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
آخر میں میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے سامنے اپنے دل کو کھول کر بیان کردیں اور ایماندار بن جائیں۔ میں جانتاہوں کہ پہلے پہل آپ خوفزدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ لگن رکھنے والے لوگ اپنے جذبے یا لگن سے منحرف نہیں ہونا چاہیے پھر بھی میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ خدا سے مانگیں کہ وہ آپ پر اپنی محبت مسیح کی صورت میں ظاہر کرے۔
یہاں کچھ ویب سائٹس ہیں جو آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
www.bible.com/bible/189/jhn.1
www.4laws.com/laws/urdu/default.html

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Islamic view of Women

اسلام کا نظر یہ کہ با ئبل بدل چکی ہے

Friday, January 9th, 2015

مسیحی فکر و تشویس میں با ئبل کے ادب کی تو ثیق کی ضروت سب سےآگے ہے ۔اسِ موزوع پر میں نے دو پیغا م لکھے ہیں ۔ایک ادبی نقطی نظر اور دوسر تا یخی جا ئزہ۔جسے میں ان دعووں کی تصدیق کے لیے ثا نو ی (اضا فی با ئبل )ذرائع کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔
jesus andjew.com/wordpress/2010/02/03/is-the-bible-reliable/
jesusandjews.com/wordpress/2014/01/19/does-archaeology-disprove-the-bible/
دوسرا یہ کہ میں نے پہلے ہی انہے بلا گوں میں بنا دیا ہے ۔میر یہ خیا ل ہے کہ با ئبل کی سا لمیت پر سوال اُٹھانے سے پہلے کچھ دوسرےعنا صر کے با رے میں سمجھ لینا چا ہیے ۔جیساکہ با ئبل کا انبیا کہ خُدا ، خُدا کے کلام یا مقدس صحفیوں میں مداخلت یا غلط بیا نی پر سزا دے گا استشا 2:4
مکا شفہ 18:22دراصل دھوکا دینا ، جھوٹ اور جھوٹی گو اہی کا عنصر عیسایت کے اخلا قی معیار کے خلاف جا تا ہے ۔
جب کسی کے اعمال پر نفساتی اور روحا نی پہلو سے غور کیا جا رہا ہو جو ایک مستند مومن ہو تو من کو تبدیل کرنے کی جرات نا قابلِ تصور ہے
یہ جو از نہیں بنتا کہ دوسروں میں تر میم کرے اور بضا ہر تضادات اور مضحکہ خیز بیانا ت کو جوبا ئبل کے متن کو غیر حما یتی یا ،مشکو ک بنا سکتے ہیں ،نہ ہٹا ئیں ۔چنا نچہ اِس پو ری سا زش کا نظریہ اِس لحا ظ سے قا بل ِ اعتبا ر نہیں ۔
دو مختلف مذہبی گروہ جن کا نا م یہودی جو پرانے عہد نا مہ یا تنکھ کے محا فظ ہیں اور غیر یہودی جو نئے عہد نا مہ کے فا ثق ما لک ہیں ۔اِن کی کتابوں میں تبدیلی کا امکا ن نہیں کیو نکہ یہ دونوں اپنے ایک جیسے اور عام متن کا اشتراک کرنے ہیں حتکہ قمران پر بحیر ہ سردار سکرال جو تقریباً 1000سال پرانا مسوراتی متن سے پہلے کا ہے ،بائبل کی ثا لمیت کو ظا ہر کر تا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ مخا لف ِ گروپ کو جوبا ئبل کی تبدیلی کا دعویٰ کر ر ہے ہیں یہ جا ننا ضروری ہےورنہ وہ مسابقتی دنیا وی جا ئزہ کے طور پر موجود نہیں رہ سکیں گے یہ ان کے لئے اور بھی مناسب ہے کہ اِسے غلط ثابت کر نے کے لئے ، کلام کے اعدادوشما ر کی بنیا د تک رسا ئی حا صل کریں جبکہ یہ درُست نہیں ہے
اِس سب کے بعد یہ ظا ہرہے کہ جب اِ ن سے پو چھا جا ئے کہ با ئبل کسی نے تبدیل کی ،کب تبدیل ہو ئی اور کیا تبدیلی ہو ئی ۔ اس موڑ پر ثبوت کی کمی کی وجہ سے اِ ن الزامات کا سامنا کر نے کے لئے اِ ن کے پا س اِن تینوں سوالوں کا منا سب جواب نہیں ہو گا ۔
میرا خیال نہیں کہ با ئبل کا انکا ر کر نے کے لئے قرآن کی طرف سے کو ئی مضبو ط نقطہ بن سکے جیسا کہ سورہ87:2،3:3،163:4،68:5،94:10، 5: 46-47
مذید قرآن سورہ 64:10،34:6، 6: 114-115
میں بتاتا ہے کہ خُدا کا کلام کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا ۔
چنا نچہ خدا کے کلام کے مطا بق انا جیل تورات اور زبور جو کہ خُدا کا کلام ہے میں ردوبدل نہیں ہو سکتی ۔
مجھے یقین ہے کہ میرے مسلمان دوست با ئبل پر سوال اُٹھا تے ہو ئے اپنی پا ک اور عظیم کتاب پر کو ئی مستند دلیل نہیں دیں گے ۔مذید برآ ان کے مطا بق واقعی خُدا کے الفا ظ تورایت ، زبور اور انا جیل میں نا زل ہو ئے ممکنہ طور پر خُدا کے الفا ظ کو تبدیل شدہ کہنے پر یہ با ت قرآن خود پر لا گو کر تا ہے ۔
آخر میں یہ کہ قرآن کے مطا بق محمد کے زما نے میں با ئبل درست ہے تویہ اُن مسلمانو ں کے لئے ایک مسلہ بنتا ہے ۔جو با ئبل کی تبدیلی پر الزام لگا تے ہیں ۔جو با ئبل آج ہم دیکھتے ہیں وہی صدیوں پہلے مو جو د تھی اِس میں کو ئی تبدیلی نہیں آتی ۔ کیو نکہ اسلام سے پہلے ابتدائی چرچ کے بزرگوں کے اقوال اور کلام کے ثبوتوں کو ملا کر تصدیق کی گئی ۔
قرآن کے مسیحی کلام کے الہام ، تحفظ اور اختیار کی حما یت کے متضاد با ئبل کی تبدیلی کا نقطہ نظر محمد کے پیغمبرانہ آفس کو رد کرتا ہے ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

An Islamic view that the Bible has been corrupted

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

اسلام اور امن

Friday, January 9th, 2015

میں اپنے مسلمان دوستوں سے یہ بات اکثر سنتا ہوں کہ اسلام ایک صبر یا امن سے بھرا ہو ا مذہب ہے اور چند ہی ایسے انتہا پسند ہیں جو اسلا م کا نام بد نام کر رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو پچھلی 14 صدیوں میں اسلام کے نام پر 27 کروڑ سے ذائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔ امریکہ میں ہوئے 9،11 کے صانحے سے لے کر دینا بھر میں 20 ہزار حملے دہشت گردوں نے کئے ہیں چنانچہ یہ انتشار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اقدار خیالات اور عقائد جن کے گرد اسلام گھومتا ہے یعنی جہاد اور حیران کن شہادت کے نظریے ہی ہیں جو اسلام عقیدے کی تشریح میں انتشار نفرت اور غصے کو ایک واجب چیز کے طور پر قبول کر نے کی تجویز دیتے ہیں ۔ تب اور اب بھی اسلام کو اسی طرح تصور کیا جاتا ہے اس نے زور کے ذریعے قوموں کو اپنا غلام بنایا ہے اور ڈرا اور دھمکا کر اپنی اس سوچ کو برقرار رکھا ہے ہم فتح مند ہیں ۔ چنانچہ قرآن کے اللہ کی عزت میں اور تاریخ کو قائم رکھنے پر میں مسلمانوں پر تنقید نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنی تعلمیات کی پیروی بڑی فرمابرداری کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ بات قرآن میں واضح ہوتی ہے ۔ سورۃ 123:9:73:9،29:9
خاص طور پر ،اسلامی الہات کے مطایق یہ بھی ایک وجہ کے طور پر نمایاں ہوتا ہے کہ اگر اللہ ایسے پسندوں کے حملوں کی اجازت دیتا ہے تو یہ ہی اسکی مرضی ہے۔ اس لیے لامذہب لوگوں سے اس معاملے میں نہ لڑنا اللہ کے مقصد کو پورا کرنے سے انکار ہے ۔حتی کہ میں ان اعمال کی مذمت کرتا ہوں اوریہ دیکھنا مشکل بھی نہیں کہ وہ قرآن پرعمل کررہے ہیں۔ چنانچہ میں سوچتا ہوں یہ واجب ہے آپ سے پوچھنا کہ ان قرآنی آیات کو پورا نہ کرکے کیا آپ یختہ ایماندار نہیں ہیں؟ اس طرح تو آپ قرآن کے کچھ حصوں قبول نہیں رہے۔ نیزان چند ہ آیات کو استعمال کرنا جوآپکے مذہبی نظریات سے مطابقت رکھتی ہو عالمی طور پر کچھ نظریات کی تردید کرکے دوبار اپنے حساب سے تشریح کرنا مذہب کو چھوڑنے کی ایک شکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دینا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور باقی دہشت گردی کی مخالفت نہ کرنا ایک عہداور اجازت کی شکل اختیار کرتاہےان سب کاموں کے لیے جو کہ انسانیت کے سنگین جرائم ہیں۔ اگر آپ دہشت گردی کے خلاف ایسا ہی یقین رکھتے ہیں تو کیا آپ اس کام کےخلاف خطرے میں بھی اٹھ کھڑے ہونے پر رضا مند ہیں؟ حالانکہ مسلمان اکثر یت میں امن کے حامی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ اسلامی راہنما ئی کا ایسا عنصر ہے جو کہ اسلامی معاشرے میں اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ اکثریت میں مسلمان اپنے ذاتی کاموں کی حمایت کریں گے اور دنیا کے دوسرے خیالات کی مخالفت کریں گے اور دنیا وی طور پر اس مسلے تک پہنچے کی کوشش کرنا اور اسے جمہوری او رسفارتی طریقے سے حل کرنا مغربی طریقہ ہے نہ کہ رسمی اسلامی طریقہ۔
آپ پہلے تویہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن واضح طور پر دوسروں کے بارے بات کرتا ہے۔ سورۃ 109،256:2 اسلام کے غالب آنے اور پُر اثر ہونے سے لگتا ہے کہ یہ ایسا نظریہ ہے جو مختلف مراحل سے گذر کر مضبوط ہوتا چلا گیا اور آج جب یہ اپنے پورے زور میں ہے اسلامی قوانین کے ذریعے معاشرے کو قابو میں رکھتا ہے جس میں غیر ایماندار بھی شامل ہیں۔ اکثر یہ کام مسیحو ں اور دوسرےگروہوں پر ظلم کرنے اور انہیں ستانے کی طرف لے جاتا ہے ۔میں ایک گروپ جسکا نام وآئس آف دی مارٹا ئرز ” کی مدد کرتا ہوں یہ ایک مسیحی تنظیم ہے جو ان لوگوں کی مدد کرتےہیں جو ان برے کاموں کانشانہ بنتے ہیں۔
www.persecution.com
انکی ویب سائٹ ہے ۔ تقریبا 3 لاکھ مسیحی ہر سال مختلف طور سے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔یہ نوکری اورمالکیت سے ہاتھ دھوبیٹھنے سے لے کر بندی بنانے اور قتل کردینے تک ہو تاہے۔ یہ بات مجھے اپنے دوسرے نقطے کی جانب لے جاتی ہے کہ مسلمان اکثراوقات غیر مستقل ہو تےہیں۔تب وہ قرآ ن کی یہ بات کر تے ہیں کہ مذ ہب میں کو ئی مجبوری نہیں ہے” جبکہ ان معاشروں میں جہاں ان کا غلبہ ہے وہ غیر ایمانداروں کو ستا تے ہیں،ان کو زبر دستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کرتے وہ اس کے لیے جہاد کفر کے قوانین کو استعمال کرتے ہیں۔ اور غیر مسلمانوں کو دوسرے درجے کہ شہری سمجھتے ہیں۔ کیا کسی نے کبھی سناہے کسی اسلامی گروہ نے کسی لامذہب کی مدد کی ہووہ صرف اور صرف اپنے لوگوں اورمعاشرے کے بارے سوچتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو ترجیح نہیں دیتے کیونکہ وہ اپنے آپ کو برتر محسوس کرتے ہیں۔ قرآن 110:3،6:98
لیکن مسیحیت ہی ایسی ہے جس نے سب انسانی حقوق کے لیے بڑے اقدام اٹھائے ہیں۔ ہسپتالوں سے لے کر یتیم خانوں جسے اداروں کو قائم کرنے تک۔ حال ہی میں سیریا کے مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں۔ جنہوں نے عراق میں پناہ لی ہے اور اُن اس کے اپنے مسلمان ساتھیوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ جو بھی ہے اسلام کی ترقی معاشرے میں اس طرح شروع ہوتی ہے جیسے وہ ایک قوم کوا پنے قابو میں کر لیتا ہے اور یہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقلی ، بچوں کی پیدائش اور سرمایہکاری اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ذرائع ہیں ۔ اسلام کو ایسے طریقے سے آہستہ آہستہ پھیلایا جا سکتا ہے جس میں آغاز سے اختتام تک دوستی ضرور ہو۔ ایسا کہ قرآن میں ملتا ہے۔ 28:3
اس طریقہ کو عمل میں لایا بھی جا رہا ہے ابن کا تھر کی نصسیروں میں جہاد کی وضاحت مختلف ہے اور جس کو دوسرےاسلامی مفسر اُسے اسلام کے مخالف قرار دیتے ہیں۔ ابن کا تھر کی تفاسیر یورپ اور شمالی امریکہ میں مقبول ہو رہی ہیں۔ آخر پر یہ کہ ایک جہادی کے لیے اپنی بقا اور اسلامی ریاستوں کو قابو میں دیکھنے اور شرعی قانون کے مطابق چلنے کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ باتیں اس حد تا بھڑ جاتی ہیں کہ مذہبی جنگوں کی شکا اختیار کر لیتی ہیں۔ حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے کہ وہ الہامی کتاب اور عقیدوں کو ماننے والے ہیں۔ چنانچہ دباؤ کا خیال کسی بھی درجے پر ثابت نہیں ہوتا نہ ہی یہ “صرف جنگ نظریے” کے قریب آتا ہے جب یہ ایک نمایاں فوج بن جاتی ہے۔
اس اختیار کو اپنے ہی ارکان میں مار دینے کی دھمکی کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ شخصی حقوق کی تو کوئی سوچ ہی نہیں ہوتی۔ آزادی ایک فریب نظر چیز ہے جہاں صرف اسلامی رسم ورواج جو کہ خاندان ، حکومت اور قرآن کے طرف سے راج کرتا ہے۔ اختتام میں یہ ہی کہوں گا کہ اس بات کو تسلیم کرتا ہوں صابر اور اچھے مسلمان بہت سے ہیں جو دوسروں کے اسلامی عقائد پر اس طرح عمل کرنے پر افسردہ اور مایوس ہوتے ہیں۔ میں خوش ہوں کہ ایسے بہت سے مسلمان ہیں جو ان عقائد پر نہ تو یقین کرتے رکھتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل پیرہ ہوتے ہیں۔ شاید ان کے اندر ان عقائد کی پوشیدہ طور پر تردید کرنے کی سوچ ہو لیکن خوف کے باعث کس سوچ کو آواز نہ دے سکتےہو۔نیم شعوری حالت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے آپ ہی کی وجہ سے دھوکا کھا رہا ہو اور ان عقیدوں کو سمجھ ہی نہ پا رہا ہو جو اسلام کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ مسلمان اندرونی طور پر قتل کرنے کے اس عمل کی اخلاقی معنی کے پہچاننے کے لیے تیار ہیں۔ میرا یقین ہے کہ وہ مسلمان جوا پنے نظریات میں معتدل ہیں وجہ جدید برائیوں سے بھرے انسانوں جیسے کہ ہٹلر ، سٹیلن ، ایڈی آمن ، پول پوٹ اور ہیرو ہیٹو کو دیکھنے کے بعد روعمل کے ساتھ جواب دے رہے ہیں۔ اور وہ ایسے کاموں سے جو ان لوگوں نے کئے خوفزدہ ہیں ۔کیونکہ یہ بھی کوئی مختلف نہیں اس کا م سے جو مسلمان دہشت گرد کرتے ہیں۔ ابھی بھی بد قسمتی سے کجھ مسلمان انسانی معاشرے میں ہونے والی تباہی کےلیے نہ ہی کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور نہ ہی ذمہ داری لیتے ہیں۔ یہ مجھے یسوع کی کہی ایک بات یاد دلاتا ہے کہ اے شخص تو پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر نکال پھر دوسرے کی آنکھ کا تنکا نکالنا۔ وہ اپنی آنکھ سے ٹھیک نہیں دیکھتے تو دوسروں کے نظریات سے ٹھیک طور پر کیسے واقف ہونگے۔ جو کہ حقیقی فطرت سے متعلق ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ معتدل مسلمان یہ جانتے ہیں کہ ان کی تحقیق ایک ایسی ہستی کی ہے جو چاہتا ہے زندگی کو فروغ ملے او ر اس نے اپنے پیار کی بڑی مثال فطرت کے ذریعے ہمیں دی ہے۔ اگر خدا ان محدود چیزوں / مخلوقات کو ایک محدود پیار کے ساتھ خلق کیا تو ایک لامحدود خدا اپنے بے انتہا پیار کو انسانوں کے لیے کتنا زیادہ ظاہر کرے گا۔ خد ا نے کثرت سے یسوع کے ذریعے اپنے پیار کو دنیا پر ظاہر کیا اور یسوع کو دے کر ہمارے گناہوں کا قرض اتار دیا۔ جس کے وسیلے سے ابدی زندگی ممکن ہوئی۔ خدا نے نفرت کو نہیں بلکہ محبت کا استعمال کیا اور اپنی شخصیت کی خصوصیت کو ظاہر کیا۔ اختتام میں میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس بلاگ کو پڑھا اور میں چاہوں گا آپ سلام کے معاملے میں مخلص اور ذہن کو تبدیل کرنے والی سوچ رکھیں۔ آخرکار ، ایک آزاد خیال کو سمجھنا اپنے عقیدے کے نظام کے بارے دوبارہ سے سوچنا ہی ہے۔ اور یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ انسانی حقوق اور زندگی کی تقدیس کے مخالف ہے یا نہیں۔
میں آپ سے یہ بھی کہوں گا کہ آپ حوصلہ بلند رکھیں تاکہ سچائی کو تھامے رکھیں حتی کہ آپ کو کسی معاشرے یا ثقافتی اقدار جو آپ پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان کی تردید ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
انسانی وجود کا ایک بڑا حصہ ہے جہاں خدا نے مذہب کی آخرکار تشریح کر دی ہے۔ ایک مذہب جو قربانی والی محبت کے تعلق کے طور پر بیان کیا جائے۔ یہ محبت یسوع سے شروع ہوگی اور اسکے شاگردوں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ یہ محبت ہے جو عزت کے لائق ہے کیونکہ یہ اپنی خدمت کرنانہیں ہے۔ یہاں تک اگر ردعمل میں پیار نہ ملے پھر بھی خدا کے خادم پیار کرتے ہیں کیونکہ یسوع کا پیغام ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی جانب پھیر دو۔
پیارے دوستوں ایک بہتر طریقہ ہے اور یسوع کہتا ہے وہ میں ہوں۔ یسوع ہی راہ ہے جو موت کو نہیں بلکہ زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ ڈر ، غصے ، نفرت اور قتل کی بجائے پیار کا ہونا ضروری ہے۔ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اپنے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح بخش دیا تاکہ جو کوئی ایمان لائے ہلا ک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Islam and Peace

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “Jihad, Jizya, and Just War Theory” in the Christian Research Journal Vol.36/No.1/2013

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012