مسیح کی مصلوبیت اور اسلام

جب مسیح کی موت کے بارے میں بات کی جائے تو یہ صرف بائبل اور قرآن کے مسیح کی موت کے بارے میں متصادم بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس سلسلے میں ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جوکہ سیکولر سوچ رکھنے والوں کی طرف سے تاریخی اور کرخت نکات پر مبنی ان باتوں سے ہے۔ جو مسیحی عقیدے کے مکمل خلاف ہے ۔ ان ذرائع میں اس قسم کی اشتعال انگیز مضامین بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ “مارابار سیرا پین ، یہودی تالمہ، عقالیس ، کورنیلس ، ٹیکٹس اور فالوس جو زمسس جو کہ رومی اور یہودی نظریات کو بیان کرتی ہیں۔
مسیح کی مصلوبیت کسی گمنام کونے میں بھی نہیں ہوئی اور مسیح کے دشمنوں کے لیے یہ کوئی مخص اتفاقی واقعہ نہ تھا جو کہ غلطی سے پیش آ گیا ہو کیونکہ وہ مسیح کی لاش کی جب وہ قبر میں رکھی گئی تھی نگرانی تک کرتے رہے۔ وہ یسوع کی موت سے پریشان نہ تھے کونکہ ان کو زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اس نے دوبارہ جی اٹھنے کا دعوی کیا تھا اور اس بات سے بھی کہ کوئی اس کی لاش کو چرا کر نہ لے جائے۔
نئے عہد نامے کی روشنی میں اس سارے واقعے کو دھوکہ دہی قرار دینا قطعی ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف اس مرکزی واقعے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے تمام واقعات مثلاً مصلوب کیے جانے سے لیکر جی اٹھنے اور پھر دوبارہ دکھائی دینے تک ہے۔
اصل میں مسیح کی موت صلیب پر شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب اس کو کوڑے لگائے گئے اور یہ اس پر لگائے گئے تمام الزام کے مقدمات کے بعد تھا جو رومی اور یہودی فرقوں کی طرف سے لگائے گئے تھے۔ لہذا اس تمام دورانیے میں ان سب سے لگائے گئے تھے۔ لہذا اس تمام دورانیے میں ان سب کا مسیح سے براہ راست سامنا رہا جس کی بدولت وہ اس کی شناخت میں کسی شک کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔
مسیح کی زندگی اور حدمت کی بہت سے لوگوں نے گواہی دی ہے بلکہ اس کی صلیبی موت کی اس سے بھی زیادہ اور اس وقت وہاں ہر قسم کےلوگ تھے ۔ جب اس کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ ان لوگوں میں رومی سپاہی، یہودیوں کے مذہبی رہنما اور یسوع کے پیروکار جن میں شاید یسوع کا شاگرد یوحنا بھی شامل ہے۔
وہاں وہ لوگ بھی تھے۔ جوان مقدمات اور صلیبی موت کے دوران مسیح سے بات چیت کر رہے تھے۔ اس لیے ایسا ہونا قطعی ناممکن سی بات ہے کہ اس وقت جب تمام لوگ جو اسے جانتے تھے موجود تھے اور اس کے درمیان سے دھوکے سے یا ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے بچا لیا جاتا۔ اور یہ اس بات کے بھی بالکل خلاف ہے کہ خدا کبھی جھوٹ بولے اور حقیقت کو چھپا کر کچھ اور واقعہ لوگوں کے سامنے لائے کہ یہوداہ اصل میں مسیح تھا۔ وہ الفاظ جو اس مقدمے اور تصلیب کے عمل میں بولے گئے وہ یہوداہ کے ساتھ کسی صورت یکجا نہیں ہوتے جبکہ اس شخص نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ مسیح ہے۔ اس شخص نے اس قسم کے لفظوں کا بھی استعمال کیا کہ “تم آج ہی میرے ساتھ جنت میں ہوگے” اور “انہیں معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں ” اور ” اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ یہ بیانات اس گروہ کی جانب سے تھے جوکہ بے قصور تھا نہ کہ اس کی طرف سے جو دھوکہ اور فریب دے رہے تھے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ مسیح نے جی اٹھنے کے بعد زمین پر اپنی موجودگی کا ثبوت کس طرح دیا۔ مسیح نے اپنے زخم شاگردوں کو دکھائے اس لیے یہ سمجھ لینا یا کہہ دینا یہ تمام تر واقعہ محض ایک سازش کا حصہ ہے۔ قطعی ممکن نہیں۔ کیونکہ نیا عہد نامہ اس بات کی گواہی اور ثبوت پیش کرتا ہے ، اور اس کے علاوہ اور بیرونی ذرائع بھی ہیں جن کا ذکر بھی میں نے کیا ہے۔ پرانا عہد نامہ بھی اس سلسلے میں بہت سی جگہوں پر اس واقعے کے بارے میں اشارہ دیتا ہے اور اس کو تو مسیحی لوگ تبدیل یا ختم نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ یہودیوں نے پرانے عہد نامے کی تحریروں کر تو مسیحیت کے آغاز سے بہت پہلے محفوظ کر کے رکھا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے۔ کہ جب کوئی سیکولر یہودی پرانے عہد نامے کو پہلی بار سنتا ہے خاص طور پر یسعیاہ باب نمبر 52 آیات 13-53 : 12اور زبور 22 کو وہ کبھی کبھار ان کا تعلق مسیح کی صلیبی موت اور اس مصیبت زدہ ملازم سے کرتے ہیں۔ اس نکتہ پر وہ اکثر اعتراض کر کے مخالفت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو شاید مسیحی بائبل میں سے کچھ پڑھ کے سنایا جارہا ہے یہ بات جانے بغیر کہ یہ عبارتیں دراصل انکی اپنی مقدس کتابوں میں سے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان آیات سے اس کے دکھوں اور صلیبی موت کا ذکر کرتے ہیں جو کہ کسی صورت بھی کوئی فرض یا من گھڑ قصہ یا منظر کشی نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے قتل کا طریقہ کار عام نہیں ہوا تھا۔ جب اسکے بارے میں نبیوں کی زبانیں یہ باتیں کہہ دی گئیں۔ بہرحال میں آپ کو ایک رابطہ نمبر بھیج رہا ہوں کہ آپ بائبل کی عبارتوں کو انگریزی حوالہ کے ساتھ سمجھ سکیں۔

www.bible.com/bible/189/isa.1.urd
www.bible.com/bible/189/psa.1.urd

آخر میں یہاں تک کہ اگرچہ آج کے چُبتے ہوئے حقائق بائبل کی چند عبارات کی مخالفت بھی کرتی ہیں جن کا تعلق مسیح کے مصلوب کیے جانے سے ہے مگر مسیح کی صلیبی موت کو وہ پھر بھی قبول کرتے اور مانتے ہیں او ر شاید یہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یسوع اسی سلوک کا مستحق تھا کیونکہ وہ الگ انقلابی تھا۔
آخرکار مسیح کا پیغام اس کے جذبہ اور تبلیغ کی تشریج کرتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنی موت کا ذکر کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے شاگرد بھی اس کی باتوں پر اور ان تمام واقعات کے رونما ہونے کے ذکر پر بہت حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ کچھ تو اس بات کے ہونے کا انکار بھی کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیوں اسی تو قعا ت تھیں کیونکہ یہودی اس وقت غیر ملکیوں کے قبضہ میں تھے اور ان کے نزدیک مسیحا وہ تھا جو ان کو اس غیر ملکی قبضہ سے چھڑانے اور نجات دلوانے والا تھا۔ اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اصل میں مسیح ہی وہ ہستی تھے جو ان کے لیے اس وحشیانہ قتل کا شکار ہونے والے تھے۔ یہ ظاہر ہوتا کہ ان کے لیے شاید یہ بہتر تھا کہ وہ قرآن کو سمجھتے اور مسیح کے دوبارہ ظاہر ہونے کو قیامت کے دن سے استوار کرتے کہ جب وہ آکر سب چیزوں کو دوبارہ بحال کرے گا۔
دراصل انہیں اس بات کی ضرورت نہ تھی کہ وہ اپنے پرانے عہد نامے کے ان حصوں اور عباد ت کو اچھے طریقے سے سمجھتے اور آج بھی یہودی لوگ ان تحریوں کے بارے میں بالکل نابلد ہیں اگرچہ بہت سے یہودی اپنی عبا رتو ں کو پڑھ کر ایمانداروں میں شامل ہوگئے ہیں، جن کا عبارتوں کا حوالہ میں نے دیا ہے۔
اگر اس معاملے کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ سار معاملہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب اس کی صلیبی موت اور دکھوں کو ایک نشان کے طور پر مکمل طور پر سمجھا جائے اور یہ کہ یہ سب کچھ خدا کے ابدی منصوبے میں شامل تھا۔ اس لے ہمیں کسی بھی قسم کے غلط اور گمراہ کن ترجمانی کا انکار کرنا چاہیے۔
اگر آپ کو بائبل کے عقیدہ کے بارے میں تحقیقی سروے کا موقع ملے تو یہ معاملہ شفاف ہو جائے گا کہ بائبل میں نجات کا جو بین لاقوامی نظریہ ہے وہ دراصل دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا اور اپنے نقطہ عروج پر مسیح کی صلیبی موت کے وقت پہنچا اس کی دکھ بھری صلیبی موت ، جیاٹھنا اور زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کو نجات کے قرمزی دھاگے کا نام دیا جاتا ہے جس نے تاریخ کے صفحہ پر قربانی اور مسح کیے جانے کے تمام نظام کو بیان کیا۔
قربانی کا نظام خدا کے انصاف اور رحم کے ساتھ مجتمع ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے موت اور گناہ کا مقابلہ کیا جاتا ہے یہ قانون ایک طرح سے مناسب اور پہلے سےموجود ہو عہد کو توڑنے والا ثابت ہوا اور اس کی پہلے وقتوں کی جانوروں کی قربانی اور ہدیوں کا متبادل کہاگیا ۔ اشتشنا کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ خون بہائے بغیر گناہوں سے معافی ممکن نہیں۔ اس لیے اس جانور کو معصوم ، پاک اور نعم البدل سمجھا گیا ان گروہوں یا افراد کے لیے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی کے لیے تاکہ اس کا خون ان کے لیے بہایا جائے۔
یہ تمام قصہ وہ ہے جو نئے عہد نامے میں عبرانیوں کی کتاب میں مسیح کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ جو کہ پرانے عہد نامے میں موجود ان پرانے مسودات کی حقیقی صورت ہے جو کہ خد اکے برے کی صورت میں قربان کیے جانے کے لیے دیا گیا۔ تاکہ اس نے اس کام کے ذریعے سے انسان کا خدا کے ساتھ ملاپ اور اطیمنان حاصل ہو۔
مسیح کے دنیا میں آنے کا سبب یہ تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی نمائندگی کرے اور کیونکہ وہ گناہ سے پاک تھا اور صرف وہی وہ سب کر سکتا تھا جو میں اور آپ نہ کر سکتے تھے کیونکہ خدا کے بے عیب برہ نے بخوشی اس سزا کو قبول کیا جوکہ دراصل ہمارے گناہوں کی بدولت تھی۔ اگر ہم مسیح کی راستبازی کا موازانہ کریں تو ہم اس کے سامنے کچھ بھی نہیں کیونکہ ہم نے گناہ کیا اسلئے اگر ہم ایک دوسرے سے بھی موازنہ کریں۔ تو شاید ہم صرف ایک ٹانگ پر کھڑے ہوں لیکن جب ہم خود کاموازانہ ایک سچے اور پاک خد ا کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمار ا یہ اعتماد بھی فوراً کھو جاتا ہے ۔کہ ہم میں کچھ اچھائی ہے۔ یہاں ہم سیبوں میں امتیاز نہیں کر رہے۔ جب ہم اپنے اور دوسرں کے درمیان موازنہ کرتے ہیں اور جب ہم خدا کے انصاف کے تخت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ہم بڑی عاجزی سے اس حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں کہ اگر ہم خدا کی مخلوق ہیں اور ایک بڑے درخت کی مانند ہم نے گلے سڑے پھل پیدا کیے ۔خدا ہر چیز کا لکھنے اور بناے والا ہے اور جو اس سے زیادہ یا کم ہو وہ اس کے کردار کے خلاف ہے۔ لہذا اہم میں سے سب قسم کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ جب ہم خود خد اکے سامنے نا کافی راستبازی کے ساتھ موجود ہوں۔ ہم اس کے سامنے بالکل برہنہ ہیں کہ اگر ہمارا ایک بھی عمل ہمارے سامنے آ جائے تو ہم خود کوکیسے سرزنش کریں گے کہ جب ہم زندگی کے بنیادی قوانین کے بھی پاسدار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم خود کو خدا کے انصاف سے نہیں بچا سکتے ۔ جو کہ کاملیت کا تقاضہ کرتا ہے۔
تاہم بائبل کا خدا کو محبت کے خدا کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے اور ہم اس کے محبت بھرے سلوک کا اظہار ہمارےگناہوں کی مخلصی کے لیے برہ مہیا کرنے صورت میں ہے۔ جس سے اس کا ہم پر رحم ظاہر ہوتا ہے۔
خدا کسی قسم کی ہم پر پابندی لاگو نہیں کرتا کیونکہ وہ یقیناً مکمل طور پر انصاف پسند ہے کہ ہمیں اس کی عدالت اور انصاف اور اس کے غضب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تا ہم ہمارے لیے خوشخبری یہ کہ ہم خدا کے غضب سے بچ گئے ہیں اور ہمیں بچایا بھی خدا نے ہی ہے۔ اور یہ سب مسیح کی زندگی۔ تصلیب اور جی اٹھنے کے ذریعے ہوا۔ خدا نے یہ انتظام اس لیے کیا کہ اس نے ہمارے لیے خدا سے ملاپ کا یہ حل پیش کیا ورنہ ہم خدا سے دور اور تباہی کا شکار ہو جاتے۔ اب ہمیں خدا کی طرف سے مکمل یقین دہانی ہے اس لیے اب ہم اس زندگی سے دوسری زندگی میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔
اور ہمیں ابدیت کے حصول کے لیے کسی قسم کے پانسوں کو جھیلنا نہیں پڑا۔ شاید یہ تمام محبت ، رحم اور قربانی وغیرہ آپ کے نزدیک بے معنی ہوں اور شاید آپ حیران ہوتے ہوں کہ خدا کیسے اتنی غیر موازنی صورتحال دیکھ سکتا ہے کہ ہم ایک وقت میں ہی اس قربانی اور رحم کا حصہ بن گئے ہیں۔
جب ہم اس سب کو سمجھتے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم کسی کی محبت میں والدین یا میاں بیوی کی حیثیت سے اپنی بڑی قربانی دے سکیں۔ کیونکہ صرف خدا کی محبت اور اس کی ہمارے لیے قربانی کا انتظام ہی سب سے کامل ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی ہمارے لیے محبت یا اپنی مخلوقات کے لیے محبت لامحدود ہے اور کوئی اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ میرے دوستو خدا نے زندگی اس لیے نہیں دی کہ ہم دوزخ کی آگ کا شکار ہو جائیں۔ اور بائبل بتاتی ہے کہ دوزخ کی آگ دراصل شیطان کے لیے تیار کی گئی تھی۔ تو پھر ہم اس قدر نجات کے لیے تیار کیے گئے اس قدر بہترین انتظام کا خاطر میں نہ لائیں۔ بڑے احترام کے ساتھ میرا آپ کے لیے یہ چیلنج ہے کہ آپ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟
احترام کے ساتھ میرا آ پسے چیلنج ہے کہ آ پ اپنے جر م کے سا تھ کیسے نمٹتے ہیں۔ کیا آ پ جنت کے اہل ہو نے کے لیے اچھے کا م کر تے ہو ئے اس پرحیرا ن ہو ئے یا غو ر کیا ۔
کیا آ پ کو یقین ہے کہ وا قعی اللہ آ پ کی زند گی کو قبو ل کرتا ہے ؟
نتیجتاًخدا کا پیا ر ہمیں بے یار و مد گا ر اور نا امید نہیں چھوڑتا وہ یسو ع کو جس پر ابد ی زند گی کے لیے ہم بھر و سہ کر تے ہیں ہمیں دیتے ہو ئے اپنی افرا ط محبت کو انڈیلتا ہے۔
آ خر میں یسو ع اپنے علم اور خدا کے سا تھ ذا تی تعلق کے ذر یعے آ پ کو گنا ہو ں سے رہا تی ، نا فر ما نی کے قر ض سے چھٹکا ر ہ اور مذ ہبی تو قعا ت کی نٹھر تی سے رہا ئی کے لیے
آ پ کو دعو ت دے رہا ہے۔
متی 30 – 28 :11
اے محنت اٹھا نے وا لو اور بو جھ سے دبے ہو ئے لو گوں سب میرے پا س آو۔میں تم کو آ رام دوں گا ۔
میرا جو ا اپنے او پر اٹھا لو اورر مجھ سے سیکھو ۔ کیو نکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تو تمہا ری جا نیں آرام پا ئیں گی۔ کیو نکہ میرا جو ا ملا ئم ہے۔ اور میرا بو جھ ہلکا ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Crucifixion of Jesus Christ and Islam

Leave a Reply