اسلام اور امن

میں اپنے مسلمان دوستوں سے یہ بات اکثر سنتا ہوں کہ اسلام ایک صبر یا امن سے بھرا ہو ا مذہب ہے اور چند ہی ایسے انتہا پسند ہیں جو اسلا م کا نام بد نام کر رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو پچھلی 14 صدیوں میں اسلام کے نام پر 27 کروڑ سے ذائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔ امریکہ میں ہوئے 9،11 کے صانحے سے لے کر دینا بھر میں 20 ہزار حملے دہشت گردوں نے کئے ہیں چنانچہ یہ انتشار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اقدار خیالات اور عقائد جن کے گرد اسلام گھومتا ہے یعنی جہاد اور حیران کن شہادت کے نظریے ہی ہیں جو اسلام عقیدے کی تشریح میں انتشار نفرت اور غصے کو ایک واجب چیز کے طور پر قبول کر نے کی تجویز دیتے ہیں ۔ تب اور اب بھی اسلام کو اسی طرح تصور کیا جاتا ہے اس نے زور کے ذریعے قوموں کو اپنا غلام بنایا ہے اور ڈرا اور دھمکا کر اپنی اس سوچ کو برقرار رکھا ہے ہم فتح مند ہیں ۔ چنانچہ قرآن کے اللہ کی عزت میں اور تاریخ کو قائم رکھنے پر میں مسلمانوں پر تنقید نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنی تعلمیات کی پیروی بڑی فرمابرداری کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ بات قرآن میں واضح ہوتی ہے ۔ سورۃ 123:9:73:9،29:9
خاص طور پر ،اسلامی الہات کے مطایق یہ بھی ایک وجہ کے طور پر نمایاں ہوتا ہے کہ اگر اللہ ایسے پسندوں کے حملوں کی اجازت دیتا ہے تو یہ ہی اسکی مرضی ہے۔ اس لیے لامذہب لوگوں سے اس معاملے میں نہ لڑنا اللہ کے مقصد کو پورا کرنے سے انکار ہے ۔حتی کہ میں ان اعمال کی مذمت کرتا ہوں اوریہ دیکھنا مشکل بھی نہیں کہ وہ قرآن پرعمل کررہے ہیں۔ چنانچہ میں سوچتا ہوں یہ واجب ہے آپ سے پوچھنا کہ ان قرآنی آیات کو پورا نہ کرکے کیا آپ یختہ ایماندار نہیں ہیں؟ اس طرح تو آپ قرآن کے کچھ حصوں قبول نہیں رہے۔ نیزان چند ہ آیات کو استعمال کرنا جوآپکے مذہبی نظریات سے مطابقت رکھتی ہو عالمی طور پر کچھ نظریات کی تردید کرکے دوبار اپنے حساب سے تشریح کرنا مذہب کو چھوڑنے کی ایک شکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دینا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور باقی دہشت گردی کی مخالفت نہ کرنا ایک عہداور اجازت کی شکل اختیار کرتاہےان سب کاموں کے لیے جو کہ انسانیت کے سنگین جرائم ہیں۔ اگر آپ دہشت گردی کے خلاف ایسا ہی یقین رکھتے ہیں تو کیا آپ اس کام کےخلاف خطرے میں بھی اٹھ کھڑے ہونے پر رضا مند ہیں؟ حالانکہ مسلمان اکثر یت میں امن کے حامی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ اسلامی راہنما ئی کا ایسا عنصر ہے جو کہ اسلامی معاشرے میں اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ اکثریت میں مسلمان اپنے ذاتی کاموں کی حمایت کریں گے اور دنیا کے دوسرے خیالات کی مخالفت کریں گے اور دنیا وی طور پر اس مسلے تک پہنچے کی کوشش کرنا اور اسے جمہوری او رسفارتی طریقے سے حل کرنا مغربی طریقہ ہے نہ کہ رسمی اسلامی طریقہ۔
آپ پہلے تویہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن واضح طور پر دوسروں کے بارے بات کرتا ہے۔ سورۃ 109،256:2 اسلام کے غالب آنے اور پُر اثر ہونے سے لگتا ہے کہ یہ ایسا نظریہ ہے جو مختلف مراحل سے گذر کر مضبوط ہوتا چلا گیا اور آج جب یہ اپنے پورے زور میں ہے اسلامی قوانین کے ذریعے معاشرے کو قابو میں رکھتا ہے جس میں غیر ایماندار بھی شامل ہیں۔ اکثر یہ کام مسیحو ں اور دوسرےگروہوں پر ظلم کرنے اور انہیں ستانے کی طرف لے جاتا ہے ۔میں ایک گروپ جسکا نام وآئس آف دی مارٹا ئرز ” کی مدد کرتا ہوں یہ ایک مسیحی تنظیم ہے جو ان لوگوں کی مدد کرتےہیں جو ان برے کاموں کانشانہ بنتے ہیں۔
www.persecution.com
انکی ویب سائٹ ہے ۔ تقریبا 3 لاکھ مسیحی ہر سال مختلف طور سے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔یہ نوکری اورمالکیت سے ہاتھ دھوبیٹھنے سے لے کر بندی بنانے اور قتل کردینے تک ہو تاہے۔ یہ بات مجھے اپنے دوسرے نقطے کی جانب لے جاتی ہے کہ مسلمان اکثراوقات غیر مستقل ہو تےہیں۔تب وہ قرآ ن کی یہ بات کر تے ہیں کہ مذ ہب میں کو ئی مجبوری نہیں ہے” جبکہ ان معاشروں میں جہاں ان کا غلبہ ہے وہ غیر ایمانداروں کو ستا تے ہیں،ان کو زبر دستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کرتے وہ اس کے لیے جہاد کفر کے قوانین کو استعمال کرتے ہیں۔ اور غیر مسلمانوں کو دوسرے درجے کہ شہری سمجھتے ہیں۔ کیا کسی نے کبھی سناہے کسی اسلامی گروہ نے کسی لامذہب کی مدد کی ہووہ صرف اور صرف اپنے لوگوں اورمعاشرے کے بارے سوچتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو ترجیح نہیں دیتے کیونکہ وہ اپنے آپ کو برتر محسوس کرتے ہیں۔ قرآن 110:3،6:98
لیکن مسیحیت ہی ایسی ہے جس نے سب انسانی حقوق کے لیے بڑے اقدام اٹھائے ہیں۔ ہسپتالوں سے لے کر یتیم خانوں جسے اداروں کو قائم کرنے تک۔ حال ہی میں سیریا کے مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں۔ جنہوں نے عراق میں پناہ لی ہے اور اُن اس کے اپنے مسلمان ساتھیوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ جو بھی ہے اسلام کی ترقی معاشرے میں اس طرح شروع ہوتی ہے جیسے وہ ایک قوم کوا پنے قابو میں کر لیتا ہے اور یہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقلی ، بچوں کی پیدائش اور سرمایہکاری اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ذرائع ہیں ۔ اسلام کو ایسے طریقے سے آہستہ آہستہ پھیلایا جا سکتا ہے جس میں آغاز سے اختتام تک دوستی ضرور ہو۔ ایسا کہ قرآن میں ملتا ہے۔ 28:3
اس طریقہ کو عمل میں لایا بھی جا رہا ہے ابن کا تھر کی نصسیروں میں جہاد کی وضاحت مختلف ہے اور جس کو دوسرےاسلامی مفسر اُسے اسلام کے مخالف قرار دیتے ہیں۔ ابن کا تھر کی تفاسیر یورپ اور شمالی امریکہ میں مقبول ہو رہی ہیں۔ آخر پر یہ کہ ایک جہادی کے لیے اپنی بقا اور اسلامی ریاستوں کو قابو میں دیکھنے اور شرعی قانون کے مطابق چلنے کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ باتیں اس حد تا بھڑ جاتی ہیں کہ مذہبی جنگوں کی شکا اختیار کر لیتی ہیں۔ حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے کہ وہ الہامی کتاب اور عقیدوں کو ماننے والے ہیں۔ چنانچہ دباؤ کا خیال کسی بھی درجے پر ثابت نہیں ہوتا نہ ہی یہ “صرف جنگ نظریے” کے قریب آتا ہے جب یہ ایک نمایاں فوج بن جاتی ہے۔
اس اختیار کو اپنے ہی ارکان میں مار دینے کی دھمکی کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ شخصی حقوق کی تو کوئی سوچ ہی نہیں ہوتی۔ آزادی ایک فریب نظر چیز ہے جہاں صرف اسلامی رسم ورواج جو کہ خاندان ، حکومت اور قرآن کے طرف سے راج کرتا ہے۔ اختتام میں یہ ہی کہوں گا کہ اس بات کو تسلیم کرتا ہوں صابر اور اچھے مسلمان بہت سے ہیں جو دوسروں کے اسلامی عقائد پر اس طرح عمل کرنے پر افسردہ اور مایوس ہوتے ہیں۔ میں خوش ہوں کہ ایسے بہت سے مسلمان ہیں جو ان عقائد پر نہ تو یقین کرتے رکھتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل پیرہ ہوتے ہیں۔ شاید ان کے اندر ان عقائد کی پوشیدہ طور پر تردید کرنے کی سوچ ہو لیکن خوف کے باعث کس سوچ کو آواز نہ دے سکتےہو۔نیم شعوری حالت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے آپ ہی کی وجہ سے دھوکا کھا رہا ہو اور ان عقیدوں کو سمجھ ہی نہ پا رہا ہو جو اسلام کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ مسلمان اندرونی طور پر قتل کرنے کے اس عمل کی اخلاقی معنی کے پہچاننے کے لیے تیار ہیں۔ میرا یقین ہے کہ وہ مسلمان جوا پنے نظریات میں معتدل ہیں وجہ جدید برائیوں سے بھرے انسانوں جیسے کہ ہٹلر ، سٹیلن ، ایڈی آمن ، پول پوٹ اور ہیرو ہیٹو کو دیکھنے کے بعد روعمل کے ساتھ جواب دے رہے ہیں۔ اور وہ ایسے کاموں سے جو ان لوگوں نے کئے خوفزدہ ہیں ۔کیونکہ یہ بھی کوئی مختلف نہیں اس کا م سے جو مسلمان دہشت گرد کرتے ہیں۔ ابھی بھی بد قسمتی سے کجھ مسلمان انسانی معاشرے میں ہونے والی تباہی کےلیے نہ ہی کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور نہ ہی ذمہ داری لیتے ہیں۔ یہ مجھے یسوع کی کہی ایک بات یاد دلاتا ہے کہ اے شخص تو پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر نکال پھر دوسرے کی آنکھ کا تنکا نکالنا۔ وہ اپنی آنکھ سے ٹھیک نہیں دیکھتے تو دوسروں کے نظریات سے ٹھیک طور پر کیسے واقف ہونگے۔ جو کہ حقیقی فطرت سے متعلق ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ معتدل مسلمان یہ جانتے ہیں کہ ان کی تحقیق ایک ایسی ہستی کی ہے جو چاہتا ہے زندگی کو فروغ ملے او ر اس نے اپنے پیار کی بڑی مثال فطرت کے ذریعے ہمیں دی ہے۔ اگر خدا ان محدود چیزوں / مخلوقات کو ایک محدود پیار کے ساتھ خلق کیا تو ایک لامحدود خدا اپنے بے انتہا پیار کو انسانوں کے لیے کتنا زیادہ ظاہر کرے گا۔ خد ا نے کثرت سے یسوع کے ذریعے اپنے پیار کو دنیا پر ظاہر کیا اور یسوع کو دے کر ہمارے گناہوں کا قرض اتار دیا۔ جس کے وسیلے سے ابدی زندگی ممکن ہوئی۔ خدا نے نفرت کو نہیں بلکہ محبت کا استعمال کیا اور اپنی شخصیت کی خصوصیت کو ظاہر کیا۔ اختتام میں میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس بلاگ کو پڑھا اور میں چاہوں گا آپ سلام کے معاملے میں مخلص اور ذہن کو تبدیل کرنے والی سوچ رکھیں۔ آخرکار ، ایک آزاد خیال کو سمجھنا اپنے عقیدے کے نظام کے بارے دوبارہ سے سوچنا ہی ہے۔ اور یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ انسانی حقوق اور زندگی کی تقدیس کے مخالف ہے یا نہیں۔
میں آپ سے یہ بھی کہوں گا کہ آپ حوصلہ بلند رکھیں تاکہ سچائی کو تھامے رکھیں حتی کہ آپ کو کسی معاشرے یا ثقافتی اقدار جو آپ پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان کی تردید ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
انسانی وجود کا ایک بڑا حصہ ہے جہاں خدا نے مذہب کی آخرکار تشریح کر دی ہے۔ ایک مذہب جو قربانی والی محبت کے تعلق کے طور پر بیان کیا جائے۔ یہ محبت یسوع سے شروع ہوگی اور اسکے شاگردوں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ یہ محبت ہے جو عزت کے لائق ہے کیونکہ یہ اپنی خدمت کرنانہیں ہے۔ یہاں تک اگر ردعمل میں پیار نہ ملے پھر بھی خدا کے خادم پیار کرتے ہیں کیونکہ یسوع کا پیغام ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی جانب پھیر دو۔
پیارے دوستوں ایک بہتر طریقہ ہے اور یسوع کہتا ہے وہ میں ہوں۔ یسوع ہی راہ ہے جو موت کو نہیں بلکہ زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ ڈر ، غصے ، نفرت اور قتل کی بجائے پیار کا ہونا ضروری ہے۔ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اپنے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح بخش دیا تاکہ جو کوئی ایمان لائے ہلا ک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Islam and Peace

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “Jihad, Jizya, and Just War Theory” in the Christian Research Journal Vol.36/No.1/2013

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

Leave a Reply