قرآن بائبل کی حمایت کرتا ہے

قرآن ، توریت ، زبور اور انجیل کے الہی مکاشفہ کی حمایت کرتا ہے، جبکہ عصر حاضر کے مسلمان کے عقیدہ کا دعوی ہے کہ بائبل درست نہیں اور یہ بھروسہ کے لائق نہیں ۔ بے شک اس کا ثبوت نہیں ملا اور کئی رائے میں یہ محض ایک بیان ہے جو اسلام کے روحانی مالعج میں گردش کر رہا ہے۔
اس قسم کے خیال کی ایک وجہ بائبل کا مختلف اقسام میں ملنا ہے جو منطقی طور پر درست نہیں ہو سکتی۔ بائبل کی مختلف اقسام ہونے کی وجہ وسیع مقدار میں تحریری ثبوت کا ملتا ہے۔
یونانی تحریروں کی اب تک تقریباً چھ ہزار نقول وجود میں آگئی ہیں جن میں زیادہ تحریری ثبوت ہیں۔ جبکہ قدیم دور کے قدیم ادب کے کچھ ٹکڑے بھی ملے۔
آج ہمارے پاس دستاویزات کو شائع کرنے کی سہولت کے ساتھ ساتھ انہیں متعارف کروانےاور ان کی حفاظت اور اشتراک کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ بائبل کے دور میں تحریریں مہنگی اور چند ایک تھیں۔ چنانچہ کلام کے تحفظ کی ضرورت کے ساتھ اس کی فوری طلب نے نقول کی ضرورت اور گردش کو عام بنا دیا۔ اہم کتابیں قوانین اور تکنیک سے تیار کیں اور اس کی کاپیاں دستیاب یا متعارف کر دیں۔ ایسا اصلی قلمی تحریری مواد کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اس لیے کہ یہودی اس کی پیروی کریں۔ ان
کا پیوں کا ایک فائدہ صداقت کی توثیق کے طور پر موازنہ اور متن کو درست بناناہے۔
آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ قبول شدہ مسودات کے اصل مواد یا متن تبدیلی کے بغیر تضادات کم سے کم دیکھیں جا سکتے ہیں۔ کیا ہی قابل ذکر ہے کہ جب نئے عہد نامہ کو تباہ کر دیا گیا تو قدیم چرچ کے بزرگوں سے اقتباس لے کر یہ تقریباً دوبارہ تعمیر کیا گیا جن کی خدمات سے کلام کی صداقت کے ساتھ بھروسے کے ثبوت کو شواہد کے طور پر پانے میں مدد ملی۔
اس کے علاوہ نئے عہد نامہ کے حق میں اصل قلمی اقتباس اور پرانی موجودہ نقول کے درمیان تقریباً 100 سے 250 سال کی نسبتاً مختصر مدت ہے۔
ادب کے دیگر قدیم ٹکڑوں کے مقابلے میں یہ نسبتاً مختصر مدت ہے جیسے کسر گالک کی جنگوں میں تقریباً 1000 سال کے وقت کا فرق ہے۔
بائبل کی صداقت کی توثیق کا دوسرا ذریعہ بحیرہ مردار سکرال کے ساتھ آیا جو 1940ء میں قمران کے پیچھے سے ملا۔
اس وقت تک پرانے عہد نامے کی سب سے پرانی نقل مسورہ متن ہے۔ جو تقریباً 900 عیسوی تک پہنچتی ہے ۔ جب بحیرہ مردار سکرال کا جو ان تحریروں سے تقریباً 1000 سال پہلے تھا موازنہ کریں تو کوئی اہم فرق نظر نہیں آتا بائبل کی حدود قیود کا مدنظر رکھتے ہوئے مٹینگز کا انعقاد کیا گیا تاکہ کرپشن اور بدعت سے کلام کو بچایا جائے۔ کیونکہ ادب کی دیگر جعلی اقسام گردش کر رہی تھیں۔
اور چرچ کی قیاد ت میں درست عقیدہ اور کینن متعارف کیا۔ جن کا کلام کو مقدس بتانے کے لیے انعقاد کیا گیا۔

325
عیسوی میں مسیحیوں کی ایک کونسل نیشیا جبکہ 90 عیسوی میں یہودی کی کونس حمنیا میں ترتیب دی گئی۔
بائبل کے مختلف اقسام میں ہونے کی وجہ کلام کو لوگوں کی عام زبان میں حاصل کرنے کے عملی مقصد کا ارادہ تھا۔
شاگردوں کو ساری دنیا میں جا کر منادی کرنے کے بارے میں کہا اور اس معاملے کے موثر حل کا یہ ہی ایک راستہ تھا۔ بائبل کے ترجمہ کے ذریعے اس میں تبدیلی کی کوئی سازش نہ تھی ۔ میں تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی بائبل کو ان کی اصلی زبانوں میں عبرانی ، ارامی اور یونانی کے ساتھ میرے حوالہ کرے اور توقع کرے کہ میں ان کو سمجھ لوں خواہ میں ان قدیم زبانوں کا مطالعہ کروں۔ میں ثقافتی طور پر انگلش سوچنے میں ماہر ہوں تو میں اسی میں تشریح کروں گا۔
بائبل کی طرح قرآن بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کر رہا ہے جو ادبی تنقید کے قوانین سے آئے ہیں۔
اب نہ تو یہ آسمان سے گرا اور نہ ہی اللہ کی انگلی سے نقش ہو رہا تھا۔ اگر میں کہوں گا کہ محمد نے بائبل کے خیالات کے حوالے یہودیوں اور مسیحیوں دونوں کے ثانوی اثر و رسوخ کے ذریعے حاصل کئے جو ان اصل عبارتوں کے بانی تھے۔
اگر تاریخ میں وقت کی وجہ سے بائبل بدل گئی تو پھر معاملے کی حقیقت محمد کو کیسے موصول ہوئی۔ جبکہ وہ مسیحی اور یہودی اثروسوخ پر انحصار کرتا تھا۔ بائبل اسلام کی آمد سے پہلے اچھے متن کی نقول پر مشتمل ہے۔ پس مجھے اس میں بحث کا معاملہ نظر نہیں آتا۔ اگر مسیحیوں اور یہودیوں نے بائبل کے ساتھ بد سلوکی کی یا اسے خراب کیا ہوتا تو پھر اللہ نے مسلمانوں کو پہلے حاکمیت کا مکاشفہ کیوں نہ دیا میں جانتا ہوں یہ دلائل مضحکہ خیز ہیں لیکن میں ان بے بنیاد دلائل میں نقائص کے منطقی نتیجہ کو باہر لا کر آپ کو دیکھانا چاہتا تھا۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

The Quran Supports the Bible

Leave a Reply