کیا قرآن مقدس ہے ؟

جب قرآن کی پاکیزگی کا قیا س کر رہے ہوتے ہیں ہمیں لازماً اِس کا تجزیہ اِس کی ابتدائی دعووں کی صداقت کے لیے دوسرے مواد کے ساتھ کرنا ہے ۔

قرآ ن کو اسلام میں بلند مرتبہ حاصل ہےکہ یہ ایمان کے بہت سے عمل کرنے والوں کے درمیان مظاہر پرستی کی چیز ہوتے ہوئے حاشیہ لگا چُکا ہے ۔

اِس میں اضافہ کرتے ہوئے اِسلام اپنے الہام کے لیے دعوے کر چُکا ہے جو کہ دستاویز  کی عبارتی گواہی سے بالاتر ہے ۔

مورمن ازم کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے اِسلام کی روایات کی مشاہبت کو دیکھا ۔ مورمن آسمانی نقش پر ایمان رکھتے ہیں جس کی سونے کی تختیوں پر نقل کی گئی اور اِن ملکوتی مخلوق کے ہدایت نامہ کے ذریعہ یہ آسمانی  تختیاں اپنی جگہ برقرار تھیں اور دوسری زبان میں نقل کیے جانے کے لیے محفوظ تھیں ۔

جوزف سمتھ کو بھی قیاس کی رو سے ایک سچے ایمان کی تلاش کا کام سونپا گیا تھا اور اِس نے اُس کی بہت سی قیاس کردہ جنگوں اور اِسی طرح الہی سچائی کے الہام کی طرف راہنمائی کی تھی ۔اب قرآن کی طرح اِن الہی الہا م کے علاوہ” مورمن کی کتاب ” دستاویزی کاملیت میں کمتر ہے ۔

مسلمان شاید اِس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن ادبیت کے تمام ذرائع سے بڑھ کر کامل اور خوبصورت ہے جو کہ اسلامی تصدیق کے مطابق اندرونی گواہی کے ذرائع کے طور پر الہی الہام ہے ۔

اب یہاں مورمن کی کتاب سےمتعلق جوزف سمتھ کی حالت بھی تھی جس میں اُس نے بیان کیا کہ لکھی جانے والی تمام کتابوں میں یہ سب سے بڑھ کر ہے ۔

بہر حال ، یہ دونوں عبارتیں کاملیت کی کمی کے وسیلہ اپنی الہی ابتدا کے دعووں کے ساتھ آتی ہیں جسے اُن دونوں نے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ۔ دعویٰ کرنا اورہو نا د و مختلف چیزیں ہیں اور ایک شخص جو یہ ثابت کرتا ہے یا کم از کم موزو ں یا معقول گواہی دیتا ہے جو سچائی کے لیے اِس کے پلیٹ فارم کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے ۔

قرآن کے استخراج کواِس کے واحد بانی کے ذریعہ شروع کرنے کے لیے جو کہ ایک قابلِ سوال کردار ہے ۔

محمد اِن الہاموں کے حملے سے اپنی اثبات ِ عقل پر شک کرتا ہے جیسے کہ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ آیا کہ وہ ایک پاگل شخص تھا یا ایک شاعر ۔اُس نے جنات کے قبضہ میں ہوتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کیا اور یہ اُس کے اِن الہام کو حاصل کرنے سے متعلق پُر اسرار تجلی کی وجہ سے تھاجیسے کہ منہ سے جھاگ نکلنے والے رویے یا ایک دھاڑنے والے اونٹ کی مانند ۔ اِس نبی سے متعلق ایک اور سوا ل یہ ہےکہ کیوں اللہ نے ایک ناخواندہ شخص کا ایک خواندہ سچائی کو بیان کرنے کے لیے انتخاب کیا جسے اُس کی زندگی میں ترتیب نہیں دیا گیا تھا ۔

میں نے اس بارے میں ایک پوسٹ لکھی ہے

 

jesusandjews.com/wordpress/2012/01/16/کیا-محمد-ایک-جھوٹا-نبی-ہے-؟/

 

قرآن کی عبارت  کے خالص پن سے متعلقہ ایک اور قیاس آرائی یہ ہے کہ قرآن اپنی ادبیت کو ثانوی ذرائع سے ادھا ر حاصل کرتا ہے ۔ یہ ذرائع بائبل اور بہت سی خارجی تعلیمات ہیں جیسے کہ یہودی مسیحی اسفارِ محرفہ کے ادبی علوم جو ایمانی معاشرے سے باہر تھے کیونکہ اُنہوں نے کبھی الہی الہام کا اندازہ نہیں لگایا تھا ۔ اِن اسفارِ محرفہ کی تحریروں کو دونوں یہودی اور مسیحی تہذیب سے خارج کر دیا گیا تھا اور اِنہیں کبھی سنجیدہ طور سے نہیں لیا تھا ۔

اِس علم ادبیت کے ساتھ یہاں فارسی آتش پرستی کی زبانی روایات کا اثر بھی تھا جنہیں قرآنی تحریروں میں شامل کیا گیا تھا ۔ تو پھر کس طرح اللہ اپنے آسما نی پیغام کو اِس زمینی پیغام رساں کے جھوٹ اور انسانی روایت سے حاصل کر سکتا تھا؟

کونسی کاملیت یا معجزہ انسانی تصور کی ایجاد سے حاصل کیا جا سکتا تھا جسے اُن معاشروں سے رد کیا گیا تھا جو کہ کاملیت سے کمتر ہونے کے طور پر ادبی علم کی ابتدا تھی؟

اگر اسلا م ایک بڑا مذہب ہے تو پھر کیوں یہ دوسری مذہبی تحریکوں کے چھوڑنے والوں سے اِسے حاصل کرنے کی بجائے جس نے تاریخ کے اِس وقت پر اسلام کی تہذیب کو گھیرے ہوئے تھا اپنی خود کے مادی ذرائع سے شروع نہ ہوا ؟یہ کتنا اصلی ہے ؟

اِس قیاس کر دہ مقدس عبارت کو اکٹھا کرتے ہوئے ایک اور سوال آتا ہے جس کا انحصاراور بنیاد نامکمل او ر بکھرے ہوئے ختم شُدہ موادپر تھی جیسے کہ ہڈی ، لکڑی ، چمڑا ،مختلف ٹکڑوں او ر چٹانوں کے طور پر ۔

قرآن کو خطاوارفہم کی  یاد داشت اور تقریر کے وسیلہ حاصل کی گءی گواہی سے مرتب کیا گیا تھا جسے اپنے بے خطا ہونے کی یقین دہانی کے لیے درستگی اور بیش قیمت ہونے کا تقاضا کرنا تھا ۔

کیا اِسے کسی طرح ریکارڈ یا خیال کرنا ہے جسے” تمام کتابوں کی ماں” کے طور پر بیان کرنے کے لیے علمی ادب کے  یاد دلانے والے حصے کے طور پر ہونا تھا یا کیا یہ درحقیقت کسی قدیم ادب سے مختلف نہیں تھا۔

قرآن کو محمد کی زندگی کے دوران یا اُس کی موت کے کچھ عرصہ بعد اکٹھا مرتب نہیں کیا گیا بلکہ اِس کی بجائے گواہی دکھاتی ہے کہ قرآن کو نبی کی وفات کے 150 سے200 سال سے زائد عرصہ میں تالیف اور ترتیب دیا گیا تھا  اور اِسے آخر کارآٹھویں یا نویں صدی میں اولیا ء کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا ۔

سکالرز نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن کے مقولوں کو کسی ایک شخص نےاکٹھا نہیں کیا تھا بلکہ دو سو سالوں سے زائد عرصہ میں لوگوں کے گروہ نے اکٹھا کیا تھا ۔

قرآن کی سب سے پُرانی نقل کو  مائیل میں تقریبا ً790 عیسویٰ میں لکھا گیا تھا جو کہ محمد کی وفات کے تقریباً150 سال بعد تھی ۔

یہا ں تک کہ قدیم رسم الخط بتاتا ہے کہ اِس کا وجود محمد کے وقت سے 100 سال الگ تھا ۔ اِس اتھمان کی نقول میں اضافہ کرتے ہوئے جن کا مزید وجود نہیں اور اسلامی سکالرز کے دعووں کے وسیلہ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کوفی دستاویز جو اِن تکراری دستاویز کی حامل تھی جو اتھمان کے وقت قابل استعمال نہیں تھی اور اتھمان کی وفات کے 150 سال بعد تک نظر نہیں آتی ۔

قیاس کی رو سے یہ بھی کہ عربی زبان اللہ کی آسمانی زبان ہے اور اگر قران کی ابتدا اللہ سے ہوئی تو کیوں قرآن اجنبی الفاظ کے استعمال سے اپنی خبر رسائی کو حاصل کرتا ہے جیسے کہ امریکی ، اسوری ، فارسی ، سُریانی، عبرانی یونانی ، ارام اور ایتھوپی ۔

اگر قرآن بہت تحقیق شُدہ ہے پھر کیوں یہاں عبارتی اصلیت یا خالص عبارت نہیں ہے جو اب بھی دستیاب ہے خاص طور پر وہ دستاویز جو اسلام کی آمد کی اصل تاریخ سے پہلے تھی جس نے پوری طرح اپنے وجود کو قائم رکھا ۔ یقینا ً اللہ اپنے قادرِ مطلق ہونے کے ساتھ اپنے مقدس کلام کی حفاظت کر سکتا تھا ۔

قرآن کی تاریخ سے متعلق اِسے قیاس کی رو سے زید ابنِ تابت کے تحت ہم پہلو کیا گیا جسے محمد کا ذاتی سیکرٹری تھا ۔ زید کو ابو بکر کی ہدایت کے مطابق اِسے لینا اور محمد کی مقولوں کو ایک دستاویز بنانا تھی ۔

نتیجے کے طور پر  ، اتھمان ، تیسرے خلیفہ کے دورِ حکومت میں ،قرآن کو ایک معیار کے مطابق بنانے کے لیے ایک سوچی سمجھی کوشش کی گئی اور اِسے سارے مسلم معاشرے پر ایک عبارت کے طور پر لاگو کر دیا گیا جس نے زیدؔ کی قانونی ترتیب کے لیے مزید نقلیں بنانے کی طرف راہنمائی کی  جبکہ بدلے میں اِس کے مقابلے میں  باقی تمام  دستاویز کو ختم کر ڈالا ۔

کسے ایسا کہنا ہے کہ یہ عبارت معیادی تھی جبکہ ایک شخص کو ایمانداروں کے مقابلے میں حتمی اختیار ہونا تھا جس میں سے کچھ محمد کے ذاتی رفیق تھے ؟

اب ہمارے پاس اِس گزشتہ وجود رکھنے والی عبارت کی بے شمار نقول ہیں ۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ جو ہمارے پاس ہے وہ واقعی سچے قرآن کی نمائندگی کر تا ہے اور کیا محمد اِس کی ساری فہرست کی شناخت کر سکے گا َ؟

اِس کے ساتھ اُس وقت زیادہ تر رسم الخط کی گواہی کو تباہ کر دیا گیا تھا ہمار ے پاس خالص عبارت کو دوبارہ قابلِ استعمال لانے کا درست طریقہ موجود نہیں ہے ۔

زیدؔ ،عبداللہ  ابنِ معسود ، ابو موسیٰ  اور اوبے   اِن  چاروں ساتھیوں کے درمیان فرق ہے جو اپنے درمیان انحراف اور مٹ جانے کو رکھتے تھے اور اب عبارت کے موجد محمد کے ساتھ تعلق رکھنے میں قابل اعتبار اشخاص تھے ۔ عبداللہ معسود کو محمد کی طرف سے قرآن پڑھ کر سُنانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور اوبے ؔ نبی کا سیکرٹری تھا ۔

میرا سوال یہ ہے کہ نبی کے ذاتی شاگردوں کے درمیان کونسا رسمِ الخط سب سے زیادہ درست اور مستند تھا ؟

اتھمان کون تھا جسے درستگی کا حتمی اختیار ہونا تھا جبکہ یہاں اور بھر مستند عبارتیں تھیں جن کی شناخت دوسرے معاشروں کے ساتھ تھی ؟

یہ بھی کہ جب زید نے عبارت کی تالیف کی وہ ” پتھر ” مارنے سے متعلق کجھ باتوں کو شامل کرنا بھول گیا ۔

اب اِس عبارت کو آٓخر کار اکٹھا کرنے کے بعد اِس پر بعد میں نظر ثانی کی گئی اور الحجاج سے جو کوفہ کا گورنر تھا اِسکی تصحیح کی گئی ۔

اُس نے بنیادی طور پر 11 عبارتوں میں ردو بدل کیا اور آخر میں اُس کی تبدیلیاں کم ہو کر سات رہ گئیں ۔ اِس عمل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہفسہ عبارت ، جو کہ اُسکی اصل دستاویز تھی جس سے اِس عبارت کو لیا گیا تھا ، جسے بعد میں مروانؔ نے ضائع کر دیا تھا ، جو کہ مدینہ کا گورنر تھا ۔

قرآن میں ایک اور مظہرِ قدرت تنسیخ ہے جو کہ اندرونی تردید وں کے ساتھ برتاو کرنے کا طریقہ کار ہے جنہیں عبار ت کی اصلاح کے طور پر واضح کیا گیا ہے ۔ میں حیرا ن ہو رہا ہوں کہ کیسے آپ کسی ایسی چیز کی درستگی کر رہے ہیں جو پہلے سے ہی کامل ہے جبکہ اِس الہام کو صرف 20 سال کے عرصہ میں ڈھانپاگیا اور جسے کسی اصلاح کی ضرورت نہیں جسے تہذیبی معیاروں کی اظہار کے لیے سہولت کار کے طور پر پیش کیا گیا ۔

 تنسیخ کی تعداد کو 5 سے 500 تک ہونے کے لیے کہا گیا ۔ دوسرے کہتے ہیں کہ 225 کے قریب ہے ۔ جو یہ ہمیں دکھاتا ہے وہ یہ کہ تنسیخ کی سائنس بلا شبہ غلط سائنس ہے ، جیسے درحقیقت کوئی نہیں جانتا کہ کتنی آیات کی تنسیخ کی گئی ہے ۔

اِس داخلی تردید میں اٖضافہ کرتے ہوئے یہاں سائنسی کے ساتھ ساتھ گرائمر کی غلطیاں بھی ہیں ۔

اِن تمام بدنامیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی احادیث بھی ہیں جو اچانک 9 ویں صدی میں منظر عام پر آئیں جو کہ حقیقت کے 250 سال بعد ہے ۔

600000 اصل احادیث کہتی ہیں جو اُس وقت گشت کرتھی تھیں اُن میں سے 7000اِن روایات کو 99 فیصد چھوڑتے ہوئےقائم رہیں جن کی غلط طور پر درجہ بندی کی گئی ۔

اب اگر 99 فیصد غلط ہیں تو پھر کیسے ہم 1 فیصد پر بھروسہ کر سکتے ہیں جسے البخاری نے منظور کیا ؟مسلم روایت نے زبانی قصہ گو یا کوسس کی ترسیل کے ذریعے بھی اِسے ترتیب دیا جس کے کاموں کو آٹھویں صدی سے پہلے تک تالیف نہیں کیا تھا ۔ اِن کہانیوں کو عام لوگوں سے لیا گیا اور اِنہیں سنوارا گیا جنہیں اسلا م کے بگاڑ کے لیے لایا جاتا رہا ۔ یہ بھی کہ اگر آپ کبھی ٹیلی فون کے کھیل میں مبتلا تھے یا ایک ہی وقت میں لوگوں کی بڑی تعدد کو کہانی سُنانے والے ہوں آپ اکثر اِس کا اختتام ایک مکمل فرق کہانی کے ساتھ کرتے ہیں ۔

اب اِسے دو سو سالوں تک پھیلائیں اور آپ اِس مشق کے آخری نتیجےکے لیے کیا سوچتے ہیں ؟

کیونکہ قرآن کا اللہ کی نقل کے طور پر احترام کیا گیا یا عجائبات کے طور پر جس میں مبالغہ آرائی ہو جو آزادی کے بغیرہو جو بہت سے حروف میں غلط ہو ۔ قرآن اپنے جواب دینے کی بجائے بہت سے سوالات چھوڑتا ہے ۔

کیا قرآ ن مواد کا اعلیٰ شان حصہ ہے یا کیا یہ اپنی مشہور ی کا دعویٰ کرتا ہے ؟

کیا یہ کسی دوسرے مواد کے لیے غیر مساری طور رپر عبارت کی خوبصورتی پر قابض ہے ؟ یہ ایک دیکھنے والوں کے کان کے لیے رائے چھوڑتا ہے جیسے کہ یہاں کثیر تعداد میں مستند مواد ہیں جن سے قرآن ادھار لیتا ہے ، جن میں یہ دوسروں کی آراء کی بنیاد پر سبقت لے جاتا ہے ۔

کتاب کے لیے اِسے ثانوی طور پر اکثر بے ربط ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور بُری طرح شائع کیا گیا اور یہ دوسروں کی تنقید اور جانچ پڑتال کے لیے بھی کھڑا ہونے کے قابل نہیں جو اِس کے بااختیار ہونے کے نظریہ پر مزید حقیقی ہونے کے قابل ہوں ۔

دوسروں کے لیے یہ اُس تحریک میں اِسے بے خبر اطاعت کی طرف ناقابلِ اعتراض ہونے کے ساتھ فرمانبرداری کے ساتھ گلے لگایا گیا جو عبادت کرنے والوں کے لیے اِس کے مواد کےبارے تنقیدی طور پر سوچنے کو روکتا ہے ۔

عبارت کے لیے سوال کرنا اللہ سے سوال کرنا ہو گا اور اُس کے نبی سے جو کہ مسلمان سوچ سے بالا تر ہے جسے اِسے ابدی باز گشت کے ساتھ ہیبت ناک نتائج کی صورت میں دھوکہ دہی اور سر کشی کے طور پر دیکھنا تھا ۔ آپ شاید کہتے کہ اسلام کے اِن عارضی جملوں کے باوجود اِس کا قائم رہنا قرآن کے لیے ایک معجزہ ہے اور اب میں گواہی کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ میرے لیے یہ ایمان رکھنا ایک معجزہ ہو گا کہ یہ پیغام ایک الہی الہام ہے ۔ نتیجے کے طور پر میرے پاس واقعی قرآن کے متعلق مزید آراء نہیں ہیں ۔ صرف ایک چیز جسے میں کہنے کے لیے چھوڑا ہے یہ کہ مجھے اُمید ہے کہ میرے الفاظ میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے اور اِسی لیے میں نے اپنے مسلمان دوستوں کے لیے بے قدری دکھائی ہے ۔

ایسا کرنا مُشکل ہے کیونکہ جب ذاتی ایمان میں کسی دوسری چیز کی نسبت جسے مذہبی سوچ کی ذہنیت کے لیے چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا ہو شامل کرنا مشکل ہوتا ہے پھر اِسے اکثر دھمکی یا عداوت کے طور پر دیکھا جائے ۔

میں آپ سے معافی مانگتا ہوں اگر وہ سب کچھ جو میں نے کیا وہ آپ کے غصے کو بھڑکاتا ہے عبار ت کے لیے آپ کی بدگمانی کی نسبت جسے آپ نے مقدس ہونے کے طور پر پکڑا ہوا ہے ۔

دوبارہ میر  ا ارادہ ناراض کرنا نہیں بلکہ سچائی کا دفا ع کرنا ہے اور اِس رستے پر چلنا ہے جہاں کہیں یہ ہمیں لے جائے ۔

آخر میں اِس موضو ع پر مزید معلومات  کے لیے آپ جے سمتھ کی جانب ست لکھے گئے مضامین کا حوالہ دے سکتے ہیں جن سے میرا تعلق ہے جب میں اِس بلاگ میں بھیجتا ہوں ۔


خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

jesusandjews.com/wordpress/2009/11/09/is-the-quran-sacred/

Leave a Reply