یسوع کی الوہیت اور اسلام

یسوع مسیح کی خدائی پر غور کرنے کے لیے ایک شخص کو پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بائبل قابل اعتماد ذریعہ ہے یا نہیں۔ میں نے ایک مضمون میں مسلمان کے نقطہ نظر کو مدنظر رکھ کے نئے عہد نامہ کی صداقت کے بارے میں لکھا۔
اسلام کا نظر یہ کہ با ئبل بدل چکی ہے
پورے معاملے میں یہ ایک تنازعہ ہے کہ بائبل نے یسوع کی الوہیت کی وضاحت کم کی بلکہ قرآن 116:5 کے نظریہ کے مطابق تثلیث میں جو مسیحیوں کا عقیدہے۔ اللہ ، یسوع ، مریم ایک ہیں جبکہ بائبل یا قدامت پسند مسیحی اس نظریہ کی حمایت نہیں کرتے ان کے نزدیک تثلیث کا فارمولا باپ، بیٹے اور روح القدس رہاہے۔ اگر آپ “باپ اور بیٹے کے مجازي یا علامتی استعمال کے بارے میں مذید سمجھنے میں دلچسپی لیں تو میرے دوسرے پیغام میں اس رشتے کے وضاحت کی گئی ہے۔
یسوع خدا کا بیٹا ہے
ویسے بھی بائبل متاثر کن متن کے طور پر سچی ہے یسوع کے الفاظ اور انجیلی بیان آپ کو اس کی الوہیت بتانے میں تعاون کریں گے۔ شاید پہلے یہ بات مسیحا کی حیثیت قبول کرنے والے مسلمانوں کے عارضی مشاہدہ یا شک کی بنا پر ظاہر نہ ہو بہر حال تناقضات کے مظہر میں یسوع باہر آکر الہی مسیحائی حیثیت کے کردار پر پورا اترنے کے بارے میں نہیں بتائے گا ۔ متی 11: 2 – 6 اور ان لوگوں کی مذاحمت کرتے ہوئے آگے نکل جائے جو اسے بادشاہ بناتے ہیں ۔ یوحنا 6: 14 – 15 اور قوموں کی دنیاوی بادشاہت کو رد کرتے ہوئے مذید بتائے کہ اس کی بادشاہی دنیا یا دنیاوی نظام کی نہیں یوحنا 8: 36 – 37
اس سلسلہ میں وہ ان دشمنوں کا سامنے نہیں کرے گا۔ جو ہچکچاتے ہو یسوع کو مسیح یا مسیحا مانتے ہیں۔ 22: 66 – 71
یسوع نے خود اپنی الوہیت کے بیان کی منادی نہ کی۔ جبکہ پہلے بپتسمہ دینے والا خداوند کا رستہ تیار کرنے آیا۔ یوں یسوع کا ثانوی مشن خدمت کروانا نہیں کرنا تھا۔ نجی گفتگو کے روران یسو ع نے اصلی شناخت ایماندار شاگردوں پر ظاہر کی جبکہ وہ خود ایسا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ایک آزاد سوال میں ان سے پوچھا کہ وہ یسوع کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے شاگر انسانی گواہی پر انحصار کریں بلکہ ان پر خدا باپ ، بیٹے اور پاک روح کی الہی ایجنسی کا انکشاف ہو۔
متی 16: 13 – 20 ، یوحنا 6: 44 ،یوحنا 13:16
آخر میں ان نے وقت سے پہلے اس کے ذکر سے منع کیا۔
یہ سننے میں عجیب ہےکہ یسوع نے کیسے خود کو ظاہر کرنے سے گریز کیا ۔ ایسا صرف ان نے زمین پر وقت پورا ہونے تک دشمنوں سے چھپائے رکھنے کے لیے کہا۔ تاکہ مخالفین کے لیے اعتراض نہ بن جائے جو سچائی کی تشویش کے لیے اس کی گواہی کو رد کرتے وہ اس میں غلطیاں اور گناہ ڈھونڈتے۔ پس اس مکاشفہ کا علم شاگردوں پر ظاہر ہوا جبکہ غیر ایمانداروں سے چھپائے رکھا۔ خدا اور پاک روح نے انہیں اندھا اور بہرہ بتاد یا۔ جبکہ ایمانداروں کی آنکھیں اور کان کھولے کہ وہ سچائی کو سنے اور دیکھیں۔ اس نے اپنے موتی سوروں اور کتوں کے آگے پھیکنے سےگریز کیا۔
بالواسطہ طورپر یہ موضوع بائبل کی سچائی پر پختہ شہادت ہے یہ اچھا ہو گا کہ اس علم کی جعلی تصنیف پر یسوع کی الوہیت کی تصدیق کے لیے کلام کے انجیلی بیانات اپنے کام لیں۔ آئیے اب یسوع کی قدرت کے اظہار ، یسوع کے الفاظ اور اعمال کے الہی جوہر پر اس کے شاگردوں کے انجیلی بیانات پر نظر ڈالیں۔
عبرانی کلام میں جو خدا کا ذاتی نام تھا۔ یسوع نے خدا کے نام کو خود پر لاگو کیا ” میں ہوں” یوحنا 8:58
اس نے خود کو بنی نوع انسان کی عدالت کرنے والا کہا 
متی 25: 31 – 46 لوگ مذاحمت کئے بغیر آزادی سے اسکی خدمت کرتے۔
یوحنا38:9 اس نے کہا اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں اور اسے سجدہ کیا۔
متی33:14 اور جو کشتی پر تھے انہوں نے اسے سجدہ کر کے کہا یقینا تو خدا کا بیٹا ہے۔
متی 28: 9 – 10 اور دیکھو یسوع ان سے ملا اور اس نے کہا سلام! انہوں نے پاس آ کر اس کے قدم پکڑے اور اسے سجدہ کیا۔ اس پر یسوع نے ان سے کہا ڈرو نہیں جاؤ میرے بھائیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے۔
متی28: 16 – 20 اور گیارہ شاگرد گلیل کے اس پہاڑ پر گئے۔ جو یسوع نے ان کے لئے مقرر کیا تھا اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک کیا۔ یسوع نے پاس آ کر ان سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ ان کو باپ اور بیٹے اور روح القد کے نام سے بپتسمہ دو اور ان کو یہ تعلیم دو کہ اس سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔
یوحنا 28:16 میں باپ میں سے نکلا اور دنیا میں آیا ہوں پھر دنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاتا ہوں۔
یوحنا 5:17 اور اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔
مرقس 28:2 پس ابن آدم سب کا بھی مالک ہے
متی 22: 41 – 45 اور جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے یہ پوچھ کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو۔ وہ کس کا بیٹا ہے انہوں نے اس نے کہا داؤد کا اس نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا مری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہےتو وہ اس کا بیٹا کیوں کر ٹھرا۔
متی 7: 21 23 جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے
نبو ت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے۔
اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا میر ی کبھی تم سے واقفیت نہ تھی اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔
یوحنا 13:13 تم مجھے استاد اورخداوند کہتے ہو اور خوب کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔
یوحنا باب ایک میں یسوع کوخدا کہا گیا کہ دنیا کو بنانے میں ان کی جلالی حالت پہلے سے موجود تھی۔ اس وقت یسوع خلا کے اند عمل میں کم نمایاں تھا۔ خد ا کے ساتھ الہی مساوات کے توہیں آمیز دعوؤں کے احتجاج پر اس نے دشمنوں سے مکمل طور پر فراریت اختیار کی جو اسے پسپا کرنا چاہتے تھے۔ یوحنا 5: 17 – 18
مرقس 2: 5 – 7 اسکے اور لوگوں کے مطابق وہ انسان کی حدود سے باہر ہے بالآخر کلام کے مطابق بھی اسکا درجہ بنی نوع انسان اور انبیاء سے زیادہ ہے۔ اس کے دشمنوں سے مکمل طور پر فرار ہونے کے لیے اس وقت یسوع خلا کے اندر عمل میں کم نمایاں تھا جو اسے پسپا کرنے کے لیے تیار تھے۔
آخر میں میرا سوال ہے کہ آپ بائبل کو متعبر سمجھتے ہیں تو یسوع کی الوہیت کے تصدیق کے لیے ان آیات پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ اسے محض اس باپ پر بر طرف نہ کرے کہ یہ آپ کے مذہبی ، دنیاوی نقطہ پر پوری نہیں ہوتی، بائبل کے دعوؤں پر ناحق انکار کی کوشش نہ کریں۔
ورنہ تم یسوع کے دن اپنے اور مذہبی تعصب سے منسوب گنہاگاروں میں کوئی فرق نہیں دیکھوگے۔ جو بائبل کے گواہ ، یسوع کے الہی الفاظ کی گواہی ، ایمان اور بھروسے کے علاوہ یسوع کے مسیحا ہونے کے ساتھ محض انسانی مسیحا کے جلد آنے پر انکار کرتے ہیں۔ یوحنا ، متی 7: 24 – 27

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردوUrdu

The Divinity of Jesus and Islam

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

Leave a Reply