اسلام کا عورت کے بارے میں نظریہ

اسلام کا عورتوں کے بارے میں نکتہ نظر عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی معاشروں میں غالباً مختلف قوانین ہیں تاہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں عورتوں کو کسی حد تک زندگی میں ماتحت کردار دیا گیا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر جانبدار انہ ہے اور کچھ صورتوں میں عورتوں کے ساتھ غیر ضروری استحصال کے سلوک کی اجازت دیتا ہے۔
قرآن 34:4 میں عورتوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے انسانی فطرت کے مطابق اپنے جیون ساتھی کے ساتھ محبت بھرا رشتہ استوار کرنے کے لیے اعتبار کی فضا فراہم کرنا ضروری ہے ۔ جس کا مرکزی مقصد اپنے ساتھی کی حفاظت اور دیکھ بھال ہے۔ لہذا اس قسم کا اصلاحی عمل محبت کو کیسے ظاہر کر سکتا ہے؟ اگر یہی صورتحال ہے تو جب خاوند کوئی غلطی کرنے تو اس کو سدھارنے کے لیے کیا طریقہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ شوہر کی غلطی پر اس سے بھی بالکل ایسا ہی سلوک کیا جائے تا وقتیکہ وہ غلطی پر نہ ہو کیونکہ اخلاقی طور پر اسکو زیادہ برتری حاصل ہے؟
شاید اخلاقی لحاظ سے عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے حدیث میں یہ سمجھا گیا کہ عورتوں کو سدھارنے کی غرض سے ان پر سختی کی جائے۔ آخرکار حدیث کا یہ موقف ہے کہ اس نقطہ نظر کو پیش کیا جائے کہ عورتیں روحانی اور اخلاقی لحاظ سے پست ہیں اور برائی کی طرف جلد راغب ہو تی ہیں۔ . حدیث فرماتی ہے کہ عورتوں کی اقلیت آسمانی گھر پر قبضہ کے ساتھ جبکہ جہنم کی رہائش گاہ میں جانے والوں میں اکثریت ہیں مسلم،والیم. 4، حدیث 6597، صحفہ. 1432 اور مسلم،والیم. 4، حدیث 6600،صحفہ1432
اسلامی تصورات سرور یالطف کی اقدار پربھی مرکوز ہیں جو مردوں کی جنسی پرستی / جنسی خواہش کے گرد گھومتی ہیں ۔ خدا کا خوف رکھنے والے مسلم مرد کو جنت میں ایک دن سو کنواریوں کے ساتھ مباشرت کرنے کا لطف یا خوشی عطا کی گئی ہے۔ (سورہ 55) ۔ کیا عورتوں کی اقلیت کو جو اسے اپنا جنت کا گھر بناتی ہیں۔ ایسا ہی صلہ ملے گا؟ ایک بیوی جو پوری زندگی کیلئے شادی کے بندھن میں بندھی ہے یہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو کیسے عزت کی نگاہ سے دیکھ سکتی ہے کہ ایک دن اس کا شوہر جنت کے محل میں غیر عورتوں کی ساتھ جنسی سرور اور جنسی ہوس کی لذت کے ساتھ لطف اندوز ہو گا۔
اگر مستقبل میں جنت کی حوالے سے اس کا یہ مقصد ہے تو پھر اس زمینی مختصر زندگی میں بیوی کے ساتھ تعلق کے لیے اس کا کیا مقصد ہے؟ اگر وہ ابدی زںدگی میں جسمانی خوشی یا سرور سے لطف اٹھانے کے لیے راضی ہے تو کیا آپکو یقین ہے کہ اب آپ کے ساتھ اسکا تعلق اس مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ شاید ایک بار وہ ختم ہوجائے اور اس زندگی مین اپ سے مطمئن ہو تو پھر آپ کے پاس جنت میں اس کی پیروی کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہوگا۔ اب اس کی ضروریات دورسرے(دوسری عورتیں) پوری کریں گے۔
مزید برآں قرآن اور حدیث بیوی کی پرواہ کیے بغیر شوہر کی جنسی تشغی کیلئے مطالباتی نظریہ پیش کرتے ہیں (قرآن 2:223) شکتا المصابیح صفحہ 691 ، ترمذی ، بخاری والیم 7 ، حدیث 121 صفحہ 93 ) اس کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی تقاضوں میں مختلف اور جنسی عدم توازن پایا جاتا ہے جس میں لڑکیوں کے جنسی اعضا کو کاٹ دیا جاتا ہےکہ وہ جنسی خواہشات سے دور رہ سکیں ۔ یہاں اس مسئلے پر بحث کی جاسکتی ہے کہ کیا محمد نے تشدد کے ایسے واقعات کی ممانعت نہیں کی تھی جبکہ ابھی تک بعض ممالک میں ایسا کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں کے پاس جنس پرستی کے قانونی فارم ہیں جس کے تحت مردوں کے درمیان جنسی خواہش کی تشغی کے لیے عارضی شادی کی اجازت دی جاتی ہے۔
ایک اور چیز جو شاید اس فارم مین غیر واضح ہے تاہم کئی خرابیاں پیدا کرسکتی ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا ہے ۔ جو خاندانی نظام میں رہتے ہوئے معاشرتی مسائل پیدا کرے کا سسب بن سکتی ہے۔ اس ثقافتی تجربات کی بنیاد پر انسانیت پر ان کے بدترین اثرات کا احساس دلانے کیلئےکسی ما ہرِ سماجیات یا انسا نی اشتھنائی کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی معاشرے کیلئے اخلاقی اقدار یا قوانین بناتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس کے خلاف بحث کرے تا ہم تمام دنیا میں موجود انسانوں کی بنیادی ضروریات کی بات کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہےکہآپ اسلامی ثقافت کے جال میں پھنسے ہوں جہاں آپ اپنےآپکو قیدی اور تنہا یا بہت اداس محسوس کرتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے الگ کچھ نہیں جانتے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ کچھ عورتوں کو اسلام کے جرائم کی وجہ سے جسمانی اور جذباتی برائیوں کےذریعے سے شکار کیا جارہا ہے آپ ان حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یا پھر شاید آپ نے اسلامی ثقافت کے ساتھ خود کو منسلک کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو سکھایا گیا ہو کہ ان معاملات پر آپ کے ذہن میں کچھ نہیں آسکتا جس سے آپ پر آئندہ اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
حدیث کے مطابق عورتوں کے پاس ایک محدود یاکم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ اس نقطہ نظر سے عورت کی گواہی کوآدھا یعنی نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ کسی بات کا فیصلہ کرنے کے لیے محدود یعنی ناکافی ہے۔ جب لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے کے لیے ہدایت کی جائے کہ وہ کمتر ہیں تو پھر ان کو آسانی سے قابو میں کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مردانہ غالب مذہب سےآپ یہی حاصل کرتے ہیں جہاں سالمیت پر جسمانی طاقت حکمرانی کرتی ہے۔ بخاری والیم 3 ، حدیث 826 صفحہ 502۔
میں جانتی ہوں کہ بلاگ تلخ ہے اور مجھے امید ہے کہ میں نے اپنے کیس یا معاملے کوبراہ راست پہنچ یا رسائی کے ذریعے سے زیادہ بیان نہیں کیا۔ انصاف کے ساتھ میں اسلامی کلچر یا ثقافت کی انکسا ری کو سراہ لیتا ہے۔ پھر بھی اس کا اختتام عورتوں کو غلام بنا کر رکھنے کے معنوں کی وضاحت نہیں کرتاجوان کی انسانیت کو کم کردیتے ہیں۔
اے مردو میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ اسلام کے دعوے پر اور عورتوں کے ساتھ سلوک اور ان کے رویوں پر تنقیدی نظر ڈالو۔ حتی کہ اگر آپ ایسی ظالمانہ حرکات نہیں بھی کرتے پھر بھی ان اسلام کے پیروکاروں کی مختلف ذرائع سے جنہیں مقدس متن سمجھا جاتا ہے،حما یت کی جا تی ہے اور ان کی قد ر کی جا تی ہے ۔ یادر رکھیے یہ عورتیں ہماری مائیں ہیں جو ہمیں اس دنیا میں لائی ہیں اور جب ہم لاچار تھے تو انہوں نے ہمار ی دیکھ بھال اور نگہداشت کی۔ یہ عز ت و احترام کی حقدار ہیں۔ جو خدا نے ان کے بلند کردار کی بدولت انھیں دیا ہے۔
یعنی ہماری ذاتی دیکھ بھال اور ہمیں آدمی /مرد بنانے میں آپکو بتانا چاہتی ہوں کہ اسلام نے اپنے خدا تخلیق کیے ہوئے ہیں اور اگرچہ میں آپکی لگن کی قدر کرتا ہوں ۔ ایک مذہب میں پائے جانے والے دعوؤں کو چیلنج کرتا ہوں جن میں تباہی کا راستہ پایا جاتا ہے۔
بائبل میں خدا کے کردار کی بنیادی تعریف محبت ہے اور اسلام اس خدائی نظریےکے برعکس کھڑا ہے۔ خدا منصف ہے اور اسی طرح وہ رحیم ، مہربان ، نرم ، شفیق ، برداشت کرنے والا اور امن پسند ہے ۔ یہی خوبیاں شاید آپ اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہیں تاہم اس کے پیروکاروں میں اس کا ثبوت کہاں ہے؟
اگرچہ فنڈز کا ایک مختصر حصہ غریبوں کیلئے مختص کیا جاتا ہے تاہم عام طور پر آپ اسلامی انسانی حقوق کی تنظیمیں نہیں دیکھتے خاص طور پر دوسرے معاشروں کی طرف جوکہ بے دین یا کافروں کی فطرت خیال کی جاتی ہے۔ اسلام ایک روحانی مذہب نہیں بلکہ خوف اور دہشت کے غاصبانہ قبضے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ آپ کی پراوہ نہیں کرتا بلکہ اس کو اصل دلچسپی دنیاوی غلبہ ہے ۔ ہو سکتا ہے آپ ایک معتدل مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہوں اور اسلامی عقیدے اور پیروی کے بارے میں مختلف خیال رکھتے ہوں۔ یہ اسلام ہی ہے جو آپکے کردار کر آپکے اپنے لیے آزاد تصور کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر آپ یہ دعوی کریں کہ آپ اس قسم کے اسلامی نقطہ نظر کی پیروی نہیں کرتے تو پھر شاید آپ نام نہاد مسلمان ہیں اور لاشعوری طوپر پر آپ اپنے دل کی گہرائی میں کہیں جانتے ہیں کہ کچھ کمی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ خدا کی حقیقی محبت کا تجربہ کرنے کیلئے ایک کھلا دروازہ ہے۔
کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے یسوع مسیح کو بھیجا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
اب اے خواتین مجھے یقین ہے کہ آپ ان ذہنی صلاحیتوں کی مالک بن چکی ہیں۔ کہ آپ ایک سچی محبت کرنے والے خدا اور ایک گمراہ کرنے والے مذہب میں امتیاز کرسکتی ہیں۔
آخر میں میں دعا کرتی ہوں کہ میرے کچھ کہنے سےآپ کی عزت نفس کو دھچکا لگا ہو۔ میں نے یہ آپ کا دل دکھانے کیلئے نہیں کیا۔ اگرچہ میری یہ تقریر چیلنج کرتی ہے۔ لیکن میں نے یہ سب نفرت میں نہیں لکھا۔ میں آپکے لیے روحانی بہتری یا بھلائی چاہتا ہوں ۔ اور جب کبھی معاشرے میں قید ہوتے ہیں آپ معاشرتی حدود سے پرے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
آخر میں میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے سامنے اپنے دل کو کھول کر بیان کردیں اور ایماندار بن جائیں۔ میں جانتاہوں کہ پہلے پہل آپ خوفزدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ لگن رکھنے والے لوگ اپنے جذبے یا لگن سے منحرف نہیں ہونا چاہیے پھر بھی میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ خدا سے مانگیں کہ وہ آپ پر اپنی محبت مسیح کی صورت میں ظاہر کرے۔
یہاں کچھ ویب سائٹس ہیں جو آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
www.bible.com/bible/189/jhn.1
www.4laws.com/laws/urdu/default.html

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Islamic view of Women

Leave a Reply