حال ہی میں میرے ایک دوست نےمجھےمحمدکےآخری اورحتمی نبی ہونے کےبارے میں بتایا۔اس کے مطابق یہ عقیدہ عبرانی صحیفوں سے آیااوراستثناہ ۱۵:۱۸میں دیکھاجاسکتاہے۔
اس کلام کا ارادہ اسلام کے بانی میں اپنی تکمیل کا نہ تھاجو عبرانیوں کے لیےغیر مذہب اور جھوٹےدیوتایا بت کی نمائیدگی کرتا ہو۔یہ پیشن گوئی غلط استعمال کی گئی تھی۔
موسٰیٰ نے تو یہ الفاظ عبرانیوں کے لیے کہےتھےاور یہ عرضی ایک عبرانی ساتھی کی جانب سےعبرانیوں کو دی گٰئی تھی۔تورات اسرائیلی لوگوں کے ساتھ عہدسے شروع ہوئی اور اعمال ۲۲:۳میں پطر س کےمطابق اور اعمال ۳۷:۷میں ستفنس کے مطابق اس کی تکمیل آخری پیغمبر یسوع میں ہوئی۔
موسٰی نے کہا اسرائیل کے بچوں خدا تمہارے بھائیوں میںسے میری مانند ایک نبی برپا کریگا۔اس متن کی تفسیر میں لفظ بھائیوں ایک اہم نقطہ ہےجسے عبرانی ورثےکے لوگوں پر لاگو کیا گیا۔اگرچہ عرب نسل اور عبرانیوں کے درمیان آبائی تعلقات ہیں۔لیکن یہ صحیفہ صاف طور پر اسرائیل اور کتاب کے لوگوں پر لاگو ہوتاہے۔
مسحیوں نے اس نوشتہ کے مقدس متن کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے اسکی تحریف یا اسے غلط بیان نہیں کیا۔
چونکہ تورات یہودیت کا مرکز ہےجسے یسوع کو نبی کا عنوان دینے میں کوئی ہمدردی نہیں۔آپ اس بات پر اتفاق کرے گے کہ یہودیت کے مرکزی دھارے میں یسوع کے عظیم نبی ہونے پر انکار ہو رہا ہے اور جبکہ اسلام کے اس متن کو یوں استعمال کرنے پر اتفاق نہیں کریں گے آپ اسرائیل کی پیغمبرانہ وزارت کے مطالعہ میں یہودی فرقہ کی جانب سے بنیادی ردِعمل کی طور پراکثر استرداد دیکھ سکیں گے
عظیم صحیفوں میں سے ایک یسعیاہ نبی کی معرفت ہےجس میں یسوع کی آمدکےبارے میں بتایا گیا ہے۔یسعیاہ میں وہ یسوع کو مصیبت ذدہ خادم کےطور پر بتاتا ہے۔وہ آدمیوں میں حقیرومردودجبکہ خدا کے نزدیک مقبول تھا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ آپ یسوع کی آخری اور حتمی حیثیت جس میں کلام کے مقصد کی حتمی تکمیل ہوتی ہے انکار نہ کرے۔
کیونکہ وراثت کی شناخت اور یسوع کی شخصیت میں آخریت کی تکمیل کو متعارف کرانے میں پیغمبرانہ آواز کی خدمت ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا کا کلام سنتے اور قبول کرتے ہے۔
عبرانیوں 1:1-2
جس کے کان ہو وہ سنےکہ خدا کا روح کیا فرمارہاہے۔کیا تم خدا کی پیغمبرانہ آواز سن رہے ہو؟