سچائی ایک ایسا وصف ہے جسے اِسلامی حکمتِ عملی میں ایسے تصورات جیسے کہ تکیہ”سازش ” اور تنسیخ کرنے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مصالحت کی گئی ہے ۔
تکیہ کا نظریہ اِسلام کو پھیلانے یا اِس کے اچھے نا م کی محافظت کے لیے دوسروں کو فریب دینے اور جھوٹ بولنے کی اجاز ت دیتا ہے ۔
یہ تقریبا ً کسی بھی مذہب کے تقاضوں یا اِس کی تعلیمات جن میں ایمان سے مکمل طور پر انکاری شامل ہو اُسکی اُٹھنے والی ہر ضرورت کو التوا ء میں ڈالنے کی اجازت دیتا ہے جب کسی قسم کی دھمکی یا بد سلوکی کا خطرہ لاحق ہو اور سورہ 16: 106 کے مطابق اِس کی پابندی کی جاتی ہے
اِس میں حلف برداری کو بھی شامل کیا جاتا ہے جسے مُسلم مناظرہ کرنے والوں کے درمیان ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب وہ اپنے ایمان کو اِسلام کے مقصد کو واجب ٹھہرانے کے لیے قرآن کے مختلف حصوں سے انکاریہوتے ہوئے اور اُنہیں چھپانے کے ذریعے دفاع کر رہے ہوتے ہیں ۔
مزید براں مجھے یہ شُبہ ہے کہ اِنہی گمراہ کن اعمال کی وجہ سے میر ے کچھ مُسلمان دوست بنیادی مسیحی تعلیم کو غلط سمجھتے ہیں ۔
اِس میں اضافہ کرتے ہوئے یہاں موقوف کیے جانے کی تعلیم ہے جو کہ پُرانے الہاموں کو نئے کے ساتھ تبدیل کرنے کی فراغت کا ایک طریقہ کار تھا اور اب اگر قرآن ابدی کلام کی مکمل کاربن کاپی ( نقل) ہے تو پھر کیسے اِس سی تصحیح کی جا سکتی تھی جب اِسے بیان کر دہ الفاظ کے ساتھ کلام ہونے کے طور پر قیاس کیا گیا ہے ۔ ضمنی طور پر اِن منسوخ شُدہ آیات کو اکثر اِس منصوبہ میں گمنامی او ر ٹال مٹول کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ تکیہ کا حصہ بھی ہے اِسی لیے ایک شخص اِس دلیل کی دونوں اطراف سے آسانی کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے جب یہ اُن کے اپنے فائدے کے لیے ہوتی ہے ۔
اِس طرح بہر حال اگر یہ مداوات کو استعمال میں لائی گئی ہوں تو پھر کیسے اک مخلص عبادت گزار مُسلمان کو یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ اُنہیں سچائی بتائی گئی تھی ؟ اور یہ بھی کہ کےس وہ با اعتماد بن سکتے ہیں کہ مسیحیت درحقیت ایک جھوٹ ہے ؟ اگر قرآنی آیات کو گھومایا اور غلط لاگو کیا جا سکتا ہے پھر یہ کیسے اُس سے مختلف ہو سکتا ہے جس کے لیے مسیحیوں اور یہودیوں پربائبل کے غلط استعمال”تحریف” کے لیے الزام لگایا جاتا ہے ۔ طزیہ طور پر سورتیں دراصل اقتباسات کی تصدیق کرتی ہیں مگر بعد ازاں اِس حقیقت کی بجائے اُنہیں منسوخ کرتی ہیں کہ بائبل کی اقتباسات تبدیل نہیں ہوئےجو اِس معاملے میں بنیادی اور آخری فیصلہ ہے ۔ تاہم اِس حملہ میں خواہ وہ درست ہیں یا غلط یہاں اُن کے لیے اِس کے متبادل کوئی رستہ نہیں جبکہ یہاںبائبل کے ہزاروں رسم الخط ہیں جو اسلامی زمانہ کی اصل تاریخ سے پہلے کے ہیں جو بدلے میں ہمارے جدید ترجموں کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ اِس میں اِسلام سے پہلے قدیم کلیسیائی کاہنوں کی تحریروں کو بھی شامل ہونا تھا جنہیں اقتباسی حوالہ جات کے لیے استعمال کیا گیاجنہیں اسلام کے منظرِ عام پر آنے سے بہت عرصہ پہلے اِن بائبل کے اقتباسات کو آزادی کے ساتھ مکمل طور پر تہہ کیا گیا ۔ نا صرف یہ بلکہ مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے یہ کتنا پسندیدہ ہونا تھا جو بنیادی طور پر تانخ یا پُرانے عہد نامے کی تبدیلی میں متفق تجرد پسند گروہ ہیں اور اب آج اقتباسات بنیادی طور پر دونوں گروہوں کے لیے ایک جیسے ہیں ۔ میں نے اس بارے میں ایک پوسٹ لکھی ہے
jesusandjews.com/wordpress/2010/02/03/is-the-bible-reliable/
آخر میں اگر آپ اب بھی اِس عقیدے پر زور دیتے ہیں تو پھر کس نے خاص طور پر اقتباسات کو تبدیل کیا اور کن کو تبدیل کیا اور ایسا کب ہوا ؟ مزید براں آپ اسلامی سوچ سے باہر کونسی گواہی رکھتے ہیں جو درست طور پر اِس نظریہ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟
لہذا نتیجہ کے طور پر تکیہ “سازش” اور تنسیخ کے تصور تصفیہ ہیں جوعقیدہ کے نظام کی غلط صف بندی کرتے ہوئےواقعیاتی طریقہ کار سے خدا اور سچے مذہب کی باطل طور پر نمائندگی کرتے ہیں ۔
آخر کار کیا آپ اپنی روح کو یا اپنے آپ کو دُنیاوی نظریہ کے سپرد کرنے کے خواہاں ہیں جو اِس قسم کی مکاری کا عمل کرتا ہو ؟
Beyond Opinion, Sam Soloman Ch.4, Copyright 2007, published in Nashville Tennessee, by Thomas Nelson