Archive for the ‘اردو-Urdu’ Category

اِسلام میں دیانت دار ی

Monday, January 16th, 2012

سچائی ایک ایسا وصف ہے جسے  اِسلامی حکمتِ عملی میں ایسے تصورات  جیسے کہ تکیہ”سازش ” اور تنسیخ کرنے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مصالحت کی گئی ہے ۔

تکیہ کا نظریہ اِسلام کو پھیلانے یا اِس کے اچھے نا م کی محافظت کے لیے دوسروں کو فریب دینے اور جھوٹ بولنے کی اجاز ت دیتا ہے ۔

یہ تقریبا ً کسی بھی مذہب کے تقاضوں یا اِس کی تعلیمات جن میں ایمان سے مکمل طور پر انکاری شامل ہو اُسکی اُٹھنے والی ہر ضرورت کو التوا ء میں ڈالنے کی اجازت دیتا ہے جب کسی قسم کی دھمکی یا بد سلوکی کا خطرہ لاحق ہو اور سورہ 16: 106 کے مطابق اِس کی پابندی کی جاتی ہے

اِس میں حلف برداری کو بھی شامل کیا جاتا ہے جسے مُسلم مناظرہ کرنے والوں کے درمیان ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب وہ اپنے ایمان کو اِسلام کے مقصد کو واجب ٹھہرانے کے لیے قرآن کے مختلف حصوں سے انکاریہوتے ہوئے  اور اُنہیں چھپانے کے ذریعے دفاع کر رہے ہوتے ہیں ۔

مزید براں مجھے یہ شُبہ ہے کہ اِنہی گمراہ کن اعمال کی وجہ سے میر ے کچھ مُسلمان دوست بنیادی مسیحی تعلیم کو غلط سمجھتے ہیں ۔

اِس میں اضافہ کرتے ہوئے یہاں موقوف کیے جانے کی تعلیم ہے جو کہ پُرانے الہاموں کو نئے کے ساتھ تبدیل کرنے کی فراغت کا ایک طریقہ کار تھا اور اب اگر قرآن ابدی کلام کی مکمل کاربن کاپی ( نقل) ہے تو پھر کیسے اِس سی تصحیح کی جا سکتی تھی جب اِسے بیان کر دہ الفاظ کے ساتھ کلام ہونے کے طور پر قیاس کیا گیا ہے ۔ ضمنی طور پر اِن منسوخ شُدہ آیات کو اکثر اِس منصوبہ میں گمنامی او ر ٹال مٹول کرنے کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ تکیہ کا حصہ بھی ہے  اِسی لیے ایک شخص اِس دلیل کی دونوں اطراف سے آسانی کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے جب یہ اُن کے اپنے فائدے کے لیے ہوتی ہے ۔

اِس طرح بہر حال اگر یہ  مداوات کو استعمال میں لائی گئی ہوں تو پھر کیسے اک مخلص عبادت گزار مُسلمان کو یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ اُنہیں سچائی بتائی گئی تھی ؟ اور یہ بھی کہ کےس وہ با اعتماد بن سکتے ہیں کہ مسیحیت درحقیت ایک جھوٹ ہے ؟ اگر قرآنی آیات کو گھومایا اور غلط لاگو کیا جا سکتا ہے پھر یہ کیسے اُس سے مختلف ہو سکتا ہے جس کے لیے مسیحیوں اور یہودیوں پربائبل کے غلط  استعمال”تحریف” کے لیے الزام لگایا جاتا ہے ۔ طزیہ طور پر سورتیں دراصل اقتباسات کی تصدیق کرتی ہیں مگر بعد ازاں اِس حقیقت کی بجائے اُنہیں منسوخ کرتی ہیں کہ بائبل کی اقتباسات تبدیل نہیں ہوئےجو اِس معاملے میں بنیادی اور آخری فیصلہ ہے ۔  تاہم اِس حملہ میں خواہ وہ درست ہیں یا غلط یہاں اُن کے لیے اِس کے متبادل کوئی رستہ نہیں جبکہ یہاںبائبل کے ہزاروں  رسم الخط ہیں جو اسلامی زمانہ کی اصل تاریخ سے پہلے کے ہیں جو بدلے میں ہمارے جدید ترجموں کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ اِس میں اِسلام سے پہلے قدیم کلیسیائی کاہنوں کی تحریروں کو بھی شامل ہونا تھا جنہیں اقتباسی حوالہ جات کے لیے استعمال کیا گیاجنہیں اسلام کے منظرِ عام پر آنے سے بہت عرصہ پہلے اِن بائبل کے اقتباسات کو  آزادی کے ساتھ مکمل طور پر  تہہ کیا گیا ۔ نا صرف یہ بلکہ مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے یہ کتنا پسندیدہ ہونا تھا جو بنیادی طور پر تانخ یا پُرانے عہد نامے کی تبدیلی میں متفق تجرد پسند گروہ ہیں اور اب آج اقتباسات بنیادی طور پر دونوں گروہوں کے لیے ایک جیسے ہیں ۔ میں نے اس بارے میں ایک پوسٹ لکھی ہے

jesusandjews.com/wordpress/2010/02/03/is-the-bible-reliable/

آخر میں اگر آپ اب بھی اِس عقیدے پر زور دیتے ہیں تو پھر کس نے خاص طور پر اقتباسات کو تبدیل کیا اور کن کو تبدیل کیا اور ایسا کب ہوا ؟ مزید براں آپ اسلامی سوچ سے باہر کونسی گواہی رکھتے ہیں جو درست طور پر اِس نظریہ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟

لہذا نتیجہ کے طور پر تکیہ “سازش” اور تنسیخ کے تصور تصفیہ ہیں جوعقیدہ کے نظام کی غلط صف بندی کرتے ہوئےواقعیاتی طریقہ کار سے خدا اور سچے مذہب کی باطل طور پر نمائندگی کرتے ہیں ۔

آخر کار کیا آپ اپنی روح کو یا اپنے آپ کو دُنیاوی نظریہ کے سپرد کرنے کے خواہاں ہیں جو اِس قسم کی مکاری کا عمل کرتا ہو ؟

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

jesusandjews.com/wordpress/2011/09/17/honesty-in-islam/

Beyond Opinion, Sam Soloman Ch.4, Copyright 2007, published in Nashville Tennessee, by Thomas Nelson

یسوع کے ساتھ میری ذاتی گواہی

Monday, January 16th, 2012

سلام ،میرا نام روب ہے اور میں یو۔ ایس ۔ ٹیکساس سے ہوں ۔ اچھا ،بہر حال میں آپ کو تھوڑا بہت اپنے بارے بتانا چاہوں گا ۔ میں اکثر و بیشتر خدا میں اپنے ایمان بارے گواہی کو بانٹتے ہوئے آغاز کرتا ہوں جو کہ میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ بیس سال قبل میں ایسے وقت سے گزر رہا تھا جہاں میں درحقیقت اِس خالی پن اورکھوکھلےپن کو رکھتا تھا ۔ جب میرا یسوع پر ایمان ہوا اُس نے مجھے مکمل طور پر بھر دیا اور اب میرے پاس اِس دُنیا کی نسبت  زیادہ محبت ، خوشی ، اور سلامتی ہے جو اِس  دُنیانے مجھے کبھی دی تھی ۔ وہی میرا جذبہ اور میری زندگی ہے۔

اگر میں تجربے کی اِس حقیقت سے نہ گزرا ہوتا جسے مجھے بہت عرصہ پہلے ختم کرنا تھا اور ایمان کی دوسری میدانِ جنگ میں تلاش شروع کرنا تھی ۔ جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی وہ اِس طریقہ سے ہے کہ میں یسوع کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق میں داخل ہو گیا جو مذہب یا فلسفہ کی حدود سے بالا تر ہوتا چلا گیا ۔ ایسی ایسی چیز کو حقیقی اور چھونے کے قابل تھی ۔ ایسا اُس وقت ہوا جب میں اپنی زندگی میں ایمان کے فیصلہ کن مقام پر پہنچا کہ اُس نے انتہا پسندانہ طور پر مجھے تبدیل کیا اور جس طرح میں نے عمل کیا ، سوچا، اور یقین کیا اِسے لغوی طور پر راتوں را ت تبدیل ہونا تھا ۔ میں ایک الگ شخص تھا اور اِس میں کوئی انکار نہیں تھا اور اِس تبدیلی کو اِس سب کچھ کا گواہ ہونا تھا ۔ میں نئے سرے سے پیدا ہوا تھا اور اب میں جانتا تھا کہ یہ محض کوئی دوسری کلیسیائی اصطلاح نہیں تھی۔ میں مسیح میں ایک نئی مخلوق تھا۔ اب میری زندگی میں کچھ تبدیلیاں بتدریج بڑھ رہی تھیں جبکہ کچھ فوری اور راتوں رات تھیں ۔ میں دیکھ چُکا تھا کہ خدا میری زندگی میں چیزوں میں سے مجھے سونپ چُکا تھا جو غلبہ پانے کے لیے میری اپنی فطرتی قابلیت سے بالا تر تھیں ۔ یسوع نے مجھے وسیع و عریض گناہوں پر فتح پانے کے لیے قوت بخشی جس میں نشہ کی عادت سے لیکر جنسی بد اخلاقی جیسی ہر چیز شامل تھی۔ میں نےایمان کے فیصلہ کن مقام پر اپنی بیوی کی بگڑی ہوئی گُردہ کی بیماری اور اپنے بیٹے کی دمہ کی بیماری سے شفاحاصل کرتے دیکھا ۔ اگر میں اِس مقام پر آپ سب کو اِس کی پیشکش کرتا تو یہ دوسری رائے ہوتی پھر مجھے آپ کے وقت کو میری گواہی پڑھنے میں وقت ضائع نہ ہوتا ۔

آپ شاید کہتے کہ میں آپ کا یقین نہیں کرتا یا شاید آپ بہتر طور پر میرے مخلص ہونے کے بارے سوچتے لیکن مخلصانہ طور پر غلطلیکن دوسری جانب میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ دیانتداری اور مخلصانہ طور پر مسیح کے بارے سچائی کو آشکارہ کرنے لیے خداوند سے درخواست کیجے۔ بہرکیف پڑھنے کا ایک مرتبہ پھر شُکریہ اور میں دعا گو ہوں کہ خداوند اِس وسیلہ سے آپ کو بھر پور برکت سے نوازے ۔

 

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

My testimony with Jesus

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے ۔

Monday, January 16th, 2012

 بائبل ہمیں سکھاتی ہے کہ انسانیت کو شامل کرتے ہوئے ہر چیز کو خلق کیا اور اگرچہ خداوند کامل اور اچھا ہے ، انسان نہیں ہے ۔ خداوند نے بنی نو ع انسان کو نیک و بدکے درمیان انتخاب کرنے کی قابلیت دیتے ہوئے آزادنیک عامل خدا کی مقدس کتاب ، بائبل، خود خداوند کا مکاشفہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب نے گناہ کیا اور اُس کے جلال سے محروم ہو گئے ۔

اگر مجھے کچھ احکامات کا نام لینا ہوتا ، جو قانونی کی ایک اخلاقی بنیاد ہے ، یہاں کوئی ایک بھی نہ ہوتا جس نے خدا کے قانون کو کسی حد تک تجاوز کیا ہوتا ۔ گناہ خدا  اور دوسرے لوگوں کی بے حُرمتی کرنا ہے خواہ یہ دوسرے معبودوں کی خدمت کرنے کے وسیلہ سے ہو یا اپنے پورے دل کے ساتھ خدا کی محبت میں مکمل ناکامی کے ساتھ خدا کے نام کا غلط استعمال کرنے کے وسیلہ سے ہو ۔اِس حکم کی ہمارے والدین کی رسوائی کے ساتھ پیروی کی گئی ، قتل جو نفرت کے مساوی ہے ، زناکاری جو ہماری آنکھوں کی ہوس کے برابر ہے ، چوری کرنا ، اپنے ہمسائے کے خلاف جھوٹی گواہی دینا ، اور کسی دوسرے شخص کے مال یا بیوی  کا لالچ کرنا جس کا برتاو غلط خواہشات اور محرکات کے ساتھ ہوتا ہے ۔

یہ بے حُرمتی ہمیں ابدی طور پر خداوند سے علیحدہ اور الگ ہونے کا سبب بنا ۔ دوسرے الفاظ میں ہم کھوئے ہوئے ہیں اور اُس سے جُدا ہو چُکے ہیں کیونکہ وہ پاک ہوتے ہوئے اپنے آپ کو گناہ کے ساتھ صحبت کرنے کی اجازت نہیں دے گا ۔ گناہ خدا کا قہر لاتا ہے اور اُس کی عدالت نہ صرف یہاں ہے بلکہ ابدیت میں بھی ہے ۔ بائبل اِسے ایسی جگہ کے طور پر بیان کرتی ہے جہاں آگ نہیں بجھتی  اور جہاں بڑی اذیت ہے ۔

اِس مقام پر چیزیں نا اُمید دکھائی دیتی ہیں لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ خدا نے مسیحاکو بھیجا جو گناہ کے بغیر تھا ۔ اُس کا کام خدا کے سامنے لوگوں کے لیے درمیانی ہونا تھا اور اُس نے ایسا اپنی مادی زندگی کو مہیا کرتے ہوئے خدا کے انصاف کی تسکین کے لیے ہماری خاطر کیا ۔

وہ نا صرف بنی نوع انسان  کے لیے  ہمارے لیے سلامتی کو قا ئم رکھنے کے مرا بلکہ وہ مُردوں میں سے جی بھی اُٹھا  اور اب وہ اُن کا انتظار کرتا ہے جنہوں نے اپنا بھروسہ اُس پر رکھا ۔ پس اب جب ہم موت کے حوالہ کیے جاتے ہیں ہمارے اجسام مر جائیں گے لیکن ہم اُس کے ساتھ موجود ہونگے اور یہی ہے جس کا بائبل ابدی حیات کے طور پر حوالہ پیش کرتی ہے ۔

یہ سب کچھ اُس وقت رونما ہوتا ہے جب ہم یسوع میں اُسے اپنے نجات دہندہ کے طور پر  دل کے ساتھ اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں ایک ایسے شخص کے طور پر جو گناہ کو مٹاتا ہے اور خدا کےساتھ ہمیں سلامتی کے لیے لاتا ہے ۔ اِس میں اُسے اِس سمجھ میں خداوند کے طور پر قبول کرنا بھی شامل ہے جیسے کہ اب ہم فرمانبرداری کے ساتھ اُس کی خدمت کرتے ہیں ۔

 جب ہم اِس حیثیت کے ساتھ مسیح کو حاصل کر لیتے ہیں پھر وہ ہمیں روح القدس کی شخصیت میں آسمان کی سلامتی کو بھیجتا ہے جو ہمیں خداوند کے لیے ہماری زندگیاں بسر کرنے میں مدد کرتے ہوئے ہم میں سکونت اختیار کرتا ہے ۔

ایمان کی یہ کاروائی پانی کے بپتسمہ  یا غوطہ کی رسم کے تحت سر انجا م پاتی ہے جو پانی والی قبر میں ہونے کی مانند ہے ۔ یہ عمل خداوند کے اندرونی کام کرنے کی یاد گیری میں جسمانی طور پر نئی پیدایش کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے اِس عمل کے ذریعہ سے بیان اور قبول کیا جاتا ہے جو اندرونی طور پر ایک نیا شخص بننے کی روحانی حقیقی تبدیلی کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے ۔

یہ سارا عمل محض ایک سادہ سی کاروائی کی مانند دکھائی دیتا ہے اب یہ بہت معنی خیز ہونے کے طور پر بھرا ہوا ہے ۔ یسوع آپ کو ایسا کہتے ہوئے دعوت دیتا ہے کہ ، ” اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آو ۔ میں تم کو آرام دونگا ۔ میرا جُوا اپنے اوپر اُٹھا لو اور مجھ سے ویکھو ، کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن ۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی ۔ کیونکہ میرا جُوا ملائم اور میرا بوجھ ہلکا ہے ۔

میرے دوست اگر آج آپ اُس کے آپ کے لیے بُلاوے کی آواز سُنتے ہیں پھر آپ مہربانی سے اپنے دل کو سخت مت کیجیے بلکہ اپنی زندگی کو اپنی جان کے رکھوالے کے پاس سونپ دیجیے ۔ وہ آپ سے محبت کرتا ہے اور وہ آپ کو سلامتی بخشے گا جو ساری سمجھ اور خوشی سے بڑھ کر ہے جو ناقابلِ بیاں ہے ۔ یہ ایسا نہیں کہتی کہ آپ کی زندگی میں کبھی کوئی ہنگامہ نہیں ہو گا بلکہ وہ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی دستبردار نہ ہو گا او رنہ ہمیں چھوڑے گا ۔

اختتام پر میں آپ کی حوصلہ افزائی کرونگا کہ آپ اُس سے اُسے آپ پر حقیقی اور قابلِ دید طور سے  آشکارہ کرنے کے لیے دعا کیجیے جیسے ہم اُس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اگر آپ ایسا اپنے دل کی مخلصی اور وفاداری سے کرتے ہیں وہ ہمیں مایوس نہیں کرے گا ہمیں استعاراتی طور پر اِس کا ذائقہ چکھنے اور دیکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ خداوند کتنا بھلا ہے ۔ آمین ۔

 

 

www.4laws.com/laws/urdu/default.html

یسوع کے ساتھ میری ذاتی گواہی

How to know God

 

Used by Permission from The Pakistan Bible Society