Archive for the ‘اردو-Urdu’ Category

کیا اللہ ایک ہے؟

Friday, January 9th, 2015

اللہ کے ایک اکیلا ہونے کے پہلو کی ابتدا عرب اثرورسوخ اور ان کے آباواجداد کی اصنام پرستی سے نہیں ہوئی۔ مجھے عجیب لگتا ہے کہ عرب ثقافت غیر ملکی توحید ی خیالات اپنائے گیا جو یہودی اور مسیحیوں دونوں کے عقائد اور آثار پر مبنی ہیں۔
اسلام کی بنیاد غیر ملکی ایمان کی منادی ، شعور اور احساس جرم کی اساس پر ہے۔ جب تک انحراف ، باطل اور بد عنوانی کا ایک دوسرا ذریعہ ہے اور اس کی سچائی کو ماننے کا دعوی کرے (مسلمان) تو عظم الشان اور اختیار کا مالک خدا جو کائنات کا بادشاہ ہے ان پر کبھی سچائی ظاہر نہ کرے گا۔ کون کسی سے حق ادھارلے؟ کون یہاں ہے جس سے متاثر ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے مذہبی پہلوؤں کا انتخاب کیا جائے جن کی منفرد شناخت کے حصول کے لیے اسلامی دنیاوی جائزہ سے مطابقت ہو۔ یہاں بے شمار ایسے فرقے ہیں جو اس طرح کے انکشافات سے رونما ہوئے ۔ صرف یہواہ کے شاہدین کا اور مورمن کا مطالعہ کریں جو اسلام سے ملتا جلتا تجربہ رکھتے ہیں۔ جوزف سمتھ محمد کی طرح سچائی کی تلاش کر رہا تھا اور اسے بھی اس کی طرح ذاتی طور پر فرشتے کے ذریعے الہام ہوا۔ جوزف سمتھ کی ملکوتی ملاقات یقیناً اسکا اپنا منفرد پیغام تھا جو محمد کو دئیے گئے ملکوتی مکاشفہ سے بالکل مختلف تھا۔ پس سچا کون ہے ؟اسلام کی طرح دنیا بھر میں فرقوں میں ایک سب سے بڑا اور تیز رفتار فرقہ جوزف سمتھ کا مشہور ہے۔ اس مذہب کے ایک ارب سے زیادہ پیروکار ہیں۔
پولوس رسول نے اسلام کی آمد اور جوزف سمتھ کی ماں کی آنکھ میں اسکی چمک سے پہلے اس رحجان کے بارے میں خبردار کیا۔
گلتیوں 1: 8 میں بتاتا ہے کہ
لیکن ہم یا آسمانی کا کوئی فرشتہ بھی اس خوشخبری کے سوا جو ہم نے تمہیں سنائی کوئی اور خوشخبری تمہیں سنائے تو ملعون ہو۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Is Allah One?

یسوع کی الوہیت اور اسلام

Friday, January 9th, 2015

یسوع مسیح کی خدائی پر غور کرنے کے لیے ایک شخص کو پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بائبل قابل اعتماد ذریعہ ہے یا نہیں۔ میں نے ایک مضمون میں مسلمان کے نقطہ نظر کو مدنظر رکھ کے نئے عہد نامہ کی صداقت کے بارے میں لکھا۔
اسلام کا نظر یہ کہ با ئبل بدل چکی ہے
پورے معاملے میں یہ ایک تنازعہ ہے کہ بائبل نے یسوع کی الوہیت کی وضاحت کم کی بلکہ قرآن 116:5 کے نظریہ کے مطابق تثلیث میں جو مسیحیوں کا عقیدہے۔ اللہ ، یسوع ، مریم ایک ہیں جبکہ بائبل یا قدامت پسند مسیحی اس نظریہ کی حمایت نہیں کرتے ان کے نزدیک تثلیث کا فارمولا باپ، بیٹے اور روح القدس رہاہے۔ اگر آپ “باپ اور بیٹے کے مجازي یا علامتی استعمال کے بارے میں مذید سمجھنے میں دلچسپی لیں تو میرے دوسرے پیغام میں اس رشتے کے وضاحت کی گئی ہے۔
یسوع خدا کا بیٹا ہے
ویسے بھی بائبل متاثر کن متن کے طور پر سچی ہے یسوع کے الفاظ اور انجیلی بیان آپ کو اس کی الوہیت بتانے میں تعاون کریں گے۔ شاید پہلے یہ بات مسیحا کی حیثیت قبول کرنے والے مسلمانوں کے عارضی مشاہدہ یا شک کی بنا پر ظاہر نہ ہو بہر حال تناقضات کے مظہر میں یسوع باہر آکر الہی مسیحائی حیثیت کے کردار پر پورا اترنے کے بارے میں نہیں بتائے گا ۔ متی 11: 2 – 6 اور ان لوگوں کی مذاحمت کرتے ہوئے آگے نکل جائے جو اسے بادشاہ بناتے ہیں ۔ یوحنا 6: 14 – 15 اور قوموں کی دنیاوی بادشاہت کو رد کرتے ہوئے مذید بتائے کہ اس کی بادشاہی دنیا یا دنیاوی نظام کی نہیں یوحنا 8: 36 – 37
اس سلسلہ میں وہ ان دشمنوں کا سامنے نہیں کرے گا۔ جو ہچکچاتے ہو یسوع کو مسیح یا مسیحا مانتے ہیں۔ 22: 66 – 71
یسوع نے خود اپنی الوہیت کے بیان کی منادی نہ کی۔ جبکہ پہلے بپتسمہ دینے والا خداوند کا رستہ تیار کرنے آیا۔ یوں یسوع کا ثانوی مشن خدمت کروانا نہیں کرنا تھا۔ نجی گفتگو کے روران یسو ع نے اصلی شناخت ایماندار شاگردوں پر ظاہر کی جبکہ وہ خود ایسا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ایک آزاد سوال میں ان سے پوچھا کہ وہ یسوع کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے شاگر انسانی گواہی پر انحصار کریں بلکہ ان پر خدا باپ ، بیٹے اور پاک روح کی الہی ایجنسی کا انکشاف ہو۔
متی 16: 13 – 20 ، یوحنا 6: 44 ،یوحنا 13:16
آخر میں ان نے وقت سے پہلے اس کے ذکر سے منع کیا۔
یہ سننے میں عجیب ہےکہ یسوع نے کیسے خود کو ظاہر کرنے سے گریز کیا ۔ ایسا صرف ان نے زمین پر وقت پورا ہونے تک دشمنوں سے چھپائے رکھنے کے لیے کہا۔ تاکہ مخالفین کے لیے اعتراض نہ بن جائے جو سچائی کی تشویش کے لیے اس کی گواہی کو رد کرتے وہ اس میں غلطیاں اور گناہ ڈھونڈتے۔ پس اس مکاشفہ کا علم شاگردوں پر ظاہر ہوا جبکہ غیر ایمانداروں سے چھپائے رکھا۔ خدا اور پاک روح نے انہیں اندھا اور بہرہ بتاد یا۔ جبکہ ایمانداروں کی آنکھیں اور کان کھولے کہ وہ سچائی کو سنے اور دیکھیں۔ اس نے اپنے موتی سوروں اور کتوں کے آگے پھیکنے سےگریز کیا۔
بالواسطہ طورپر یہ موضوع بائبل کی سچائی پر پختہ شہادت ہے یہ اچھا ہو گا کہ اس علم کی جعلی تصنیف پر یسوع کی الوہیت کی تصدیق کے لیے کلام کے انجیلی بیانات اپنے کام لیں۔ آئیے اب یسوع کی قدرت کے اظہار ، یسوع کے الفاظ اور اعمال کے الہی جوہر پر اس کے شاگردوں کے انجیلی بیانات پر نظر ڈالیں۔
عبرانی کلام میں جو خدا کا ذاتی نام تھا۔ یسوع نے خدا کے نام کو خود پر لاگو کیا ” میں ہوں” یوحنا 8:58
اس نے خود کو بنی نوع انسان کی عدالت کرنے والا کہا 
متی 25: 31 – 46 لوگ مذاحمت کئے بغیر آزادی سے اسکی خدمت کرتے۔
یوحنا38:9 اس نے کہا اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں اور اسے سجدہ کیا۔
متی33:14 اور جو کشتی پر تھے انہوں نے اسے سجدہ کر کے کہا یقینا تو خدا کا بیٹا ہے۔
متی 28: 9 – 10 اور دیکھو یسوع ان سے ملا اور اس نے کہا سلام! انہوں نے پاس آ کر اس کے قدم پکڑے اور اسے سجدہ کیا۔ اس پر یسوع نے ان سے کہا ڈرو نہیں جاؤ میرے بھائیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے۔
متی28: 16 – 20 اور گیارہ شاگرد گلیل کے اس پہاڑ پر گئے۔ جو یسوع نے ان کے لئے مقرر کیا تھا اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک کیا۔ یسوع نے پاس آ کر ان سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ ان کو باپ اور بیٹے اور روح القد کے نام سے بپتسمہ دو اور ان کو یہ تعلیم دو کہ اس سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔
یوحنا 28:16 میں باپ میں سے نکلا اور دنیا میں آیا ہوں پھر دنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاتا ہوں۔
یوحنا 5:17 اور اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔
مرقس 28:2 پس ابن آدم سب کا بھی مالک ہے
متی 22: 41 – 45 اور جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے یہ پوچھ کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو۔ وہ کس کا بیٹا ہے انہوں نے اس نے کہا داؤد کا اس نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا مری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہےتو وہ اس کا بیٹا کیوں کر ٹھرا۔
متی 7: 21 23 جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے
نبو ت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے۔
اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا میر ی کبھی تم سے واقفیت نہ تھی اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔
یوحنا 13:13 تم مجھے استاد اورخداوند کہتے ہو اور خوب کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔
یوحنا باب ایک میں یسوع کوخدا کہا گیا کہ دنیا کو بنانے میں ان کی جلالی حالت پہلے سے موجود تھی۔ اس وقت یسوع خلا کے اند عمل میں کم نمایاں تھا۔ خد ا کے ساتھ الہی مساوات کے توہیں آمیز دعوؤں کے احتجاج پر اس نے دشمنوں سے مکمل طور پر فراریت اختیار کی جو اسے پسپا کرنا چاہتے تھے۔ یوحنا 5: 17 – 18
مرقس 2: 5 – 7 اسکے اور لوگوں کے مطابق وہ انسان کی حدود سے باہر ہے بالآخر کلام کے مطابق بھی اسکا درجہ بنی نوع انسان اور انبیاء سے زیادہ ہے۔ اس کے دشمنوں سے مکمل طور پر فرار ہونے کے لیے اس وقت یسوع خلا کے اندر عمل میں کم نمایاں تھا جو اسے پسپا کرنے کے لیے تیار تھے۔
آخر میں میرا سوال ہے کہ آپ بائبل کو متعبر سمجھتے ہیں تو یسوع کی الوہیت کے تصدیق کے لیے ان آیات پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ اسے محض اس باپ پر بر طرف نہ کرے کہ یہ آپ کے مذہبی ، دنیاوی نقطہ پر پوری نہیں ہوتی، بائبل کے دعوؤں پر ناحق انکار کی کوشش نہ کریں۔
ورنہ تم یسوع کے دن اپنے اور مذہبی تعصب سے منسوب گنہاگاروں میں کوئی فرق نہیں دیکھوگے۔ جو بائبل کے گواہ ، یسوع کے الہی الفاظ کی گواہی ، ایمان اور بھروسے کے علاوہ یسوع کے مسیحا ہونے کے ساتھ محض انسانی مسیحا کے جلد آنے پر انکار کرتے ہیں۔ یوحنا ، متی 7: 24 – 27

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردوUrdu

The Divinity of Jesus and Islam

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

مسیح کی مصلوبیت اور اسلام

Friday, January 9th, 2015

جب مسیح کی موت کے بارے میں بات کی جائے تو یہ صرف بائبل اور قرآن کے مسیح کی موت کے بارے میں متصادم بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس سلسلے میں ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جوکہ سیکولر سوچ رکھنے والوں کی طرف سے تاریخی اور کرخت نکات پر مبنی ان باتوں سے ہے۔ جو مسیحی عقیدے کے مکمل خلاف ہے ۔ ان ذرائع میں اس قسم کی اشتعال انگیز مضامین بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ “مارابار سیرا پین ، یہودی تالمہ، عقالیس ، کورنیلس ، ٹیکٹس اور فالوس جو زمسس جو کہ رومی اور یہودی نظریات کو بیان کرتی ہیں۔
مسیح کی مصلوبیت کسی گمنام کونے میں بھی نہیں ہوئی اور مسیح کے دشمنوں کے لیے یہ کوئی مخص اتفاقی واقعہ نہ تھا جو کہ غلطی سے پیش آ گیا ہو کیونکہ وہ مسیح کی لاش کی جب وہ قبر میں رکھی گئی تھی نگرانی تک کرتے رہے۔ وہ یسوع کی موت سے پریشان نہ تھے کونکہ ان کو زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اس نے دوبارہ جی اٹھنے کا دعوی کیا تھا اور اس بات سے بھی کہ کوئی اس کی لاش کو چرا کر نہ لے جائے۔
نئے عہد نامے کی روشنی میں اس سارے واقعے کو دھوکہ دہی قرار دینا قطعی ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف اس مرکزی واقعے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے تمام واقعات مثلاً مصلوب کیے جانے سے لیکر جی اٹھنے اور پھر دوبارہ دکھائی دینے تک ہے۔
اصل میں مسیح کی موت صلیب پر شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب اس کو کوڑے لگائے گئے اور یہ اس پر لگائے گئے تمام الزام کے مقدمات کے بعد تھا جو رومی اور یہودی فرقوں کی طرف سے لگائے گئے تھے۔ لہذا اس تمام دورانیے میں ان سب سے لگائے گئے تھے۔ لہذا اس تمام دورانیے میں ان سب کا مسیح سے براہ راست سامنا رہا جس کی بدولت وہ اس کی شناخت میں کسی شک کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔
مسیح کی زندگی اور حدمت کی بہت سے لوگوں نے گواہی دی ہے بلکہ اس کی صلیبی موت کی اس سے بھی زیادہ اور اس وقت وہاں ہر قسم کےلوگ تھے ۔ جب اس کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ ان لوگوں میں رومی سپاہی، یہودیوں کے مذہبی رہنما اور یسوع کے پیروکار جن میں شاید یسوع کا شاگرد یوحنا بھی شامل ہے۔
وہاں وہ لوگ بھی تھے۔ جوان مقدمات اور صلیبی موت کے دوران مسیح سے بات چیت کر رہے تھے۔ اس لیے ایسا ہونا قطعی ناممکن سی بات ہے کہ اس وقت جب تمام لوگ جو اسے جانتے تھے موجود تھے اور اس کے درمیان سے دھوکے سے یا ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے بچا لیا جاتا۔ اور یہ اس بات کے بھی بالکل خلاف ہے کہ خدا کبھی جھوٹ بولے اور حقیقت کو چھپا کر کچھ اور واقعہ لوگوں کے سامنے لائے کہ یہوداہ اصل میں مسیح تھا۔ وہ الفاظ جو اس مقدمے اور تصلیب کے عمل میں بولے گئے وہ یہوداہ کے ساتھ کسی صورت یکجا نہیں ہوتے جبکہ اس شخص نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ مسیح ہے۔ اس شخص نے اس قسم کے لفظوں کا بھی استعمال کیا کہ “تم آج ہی میرے ساتھ جنت میں ہوگے” اور “انہیں معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں ” اور ” اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ یہ بیانات اس گروہ کی جانب سے تھے جوکہ بے قصور تھا نہ کہ اس کی طرف سے جو دھوکہ اور فریب دے رہے تھے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ مسیح نے جی اٹھنے کے بعد زمین پر اپنی موجودگی کا ثبوت کس طرح دیا۔ مسیح نے اپنے زخم شاگردوں کو دکھائے اس لیے یہ سمجھ لینا یا کہہ دینا یہ تمام تر واقعہ محض ایک سازش کا حصہ ہے۔ قطعی ممکن نہیں۔ کیونکہ نیا عہد نامہ اس بات کی گواہی اور ثبوت پیش کرتا ہے ، اور اس کے علاوہ اور بیرونی ذرائع بھی ہیں جن کا ذکر بھی میں نے کیا ہے۔ پرانا عہد نامہ بھی اس سلسلے میں بہت سی جگہوں پر اس واقعے کے بارے میں اشارہ دیتا ہے اور اس کو تو مسیحی لوگ تبدیل یا ختم نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ یہودیوں نے پرانے عہد نامے کی تحریروں کر تو مسیحیت کے آغاز سے بہت پہلے محفوظ کر کے رکھا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے۔ کہ جب کوئی سیکولر یہودی پرانے عہد نامے کو پہلی بار سنتا ہے خاص طور پر یسعیاہ باب نمبر 52 آیات 13-53 : 12اور زبور 22 کو وہ کبھی کبھار ان کا تعلق مسیح کی صلیبی موت اور اس مصیبت زدہ ملازم سے کرتے ہیں۔ اس نکتہ پر وہ اکثر اعتراض کر کے مخالفت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو شاید مسیحی بائبل میں سے کچھ پڑھ کے سنایا جارہا ہے یہ بات جانے بغیر کہ یہ عبارتیں دراصل انکی اپنی مقدس کتابوں میں سے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان آیات سے اس کے دکھوں اور صلیبی موت کا ذکر کرتے ہیں جو کہ کسی صورت بھی کوئی فرض یا من گھڑ قصہ یا منظر کشی نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے قتل کا طریقہ کار عام نہیں ہوا تھا۔ جب اسکے بارے میں نبیوں کی زبانیں یہ باتیں کہہ دی گئیں۔ بہرحال میں آپ کو ایک رابطہ نمبر بھیج رہا ہوں کہ آپ بائبل کی عبارتوں کو انگریزی حوالہ کے ساتھ سمجھ سکیں۔

www.bible.com/bible/189/isa.1.urd
www.bible.com/bible/189/psa.1.urd

آخر میں یہاں تک کہ اگرچہ آج کے چُبتے ہوئے حقائق بائبل کی چند عبارات کی مخالفت بھی کرتی ہیں جن کا تعلق مسیح کے مصلوب کیے جانے سے ہے مگر مسیح کی صلیبی موت کو وہ پھر بھی قبول کرتے اور مانتے ہیں او ر شاید یہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یسوع اسی سلوک کا مستحق تھا کیونکہ وہ الگ انقلابی تھا۔
آخرکار مسیح کا پیغام اس کے جذبہ اور تبلیغ کی تشریج کرتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنی موت کا ذکر کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے شاگرد بھی اس کی باتوں پر اور ان تمام واقعات کے رونما ہونے کے ذکر پر بہت حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ کچھ تو اس بات کے ہونے کا انکار بھی کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیوں اسی تو قعا ت تھیں کیونکہ یہودی اس وقت غیر ملکیوں کے قبضہ میں تھے اور ان کے نزدیک مسیحا وہ تھا جو ان کو اس غیر ملکی قبضہ سے چھڑانے اور نجات دلوانے والا تھا۔ اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اصل میں مسیح ہی وہ ہستی تھے جو ان کے لیے اس وحشیانہ قتل کا شکار ہونے والے تھے۔ یہ ظاہر ہوتا کہ ان کے لیے شاید یہ بہتر تھا کہ وہ قرآن کو سمجھتے اور مسیح کے دوبارہ ظاہر ہونے کو قیامت کے دن سے استوار کرتے کہ جب وہ آکر سب چیزوں کو دوبارہ بحال کرے گا۔
دراصل انہیں اس بات کی ضرورت نہ تھی کہ وہ اپنے پرانے عہد نامے کے ان حصوں اور عباد ت کو اچھے طریقے سے سمجھتے اور آج بھی یہودی لوگ ان تحریوں کے بارے میں بالکل نابلد ہیں اگرچہ بہت سے یہودی اپنی عبا رتو ں کو پڑھ کر ایمانداروں میں شامل ہوگئے ہیں، جن کا عبارتوں کا حوالہ میں نے دیا ہے۔
اگر اس معاملے کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ سار معاملہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب اس کی صلیبی موت اور دکھوں کو ایک نشان کے طور پر مکمل طور پر سمجھا جائے اور یہ کہ یہ سب کچھ خدا کے ابدی منصوبے میں شامل تھا۔ اس لے ہمیں کسی بھی قسم کے غلط اور گمراہ کن ترجمانی کا انکار کرنا چاہیے۔
اگر آپ کو بائبل کے عقیدہ کے بارے میں تحقیقی سروے کا موقع ملے تو یہ معاملہ شفاف ہو جائے گا کہ بائبل میں نجات کا جو بین لاقوامی نظریہ ہے وہ دراصل دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا اور اپنے نقطہ عروج پر مسیح کی صلیبی موت کے وقت پہنچا اس کی دکھ بھری صلیبی موت ، جیاٹھنا اور زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کو نجات کے قرمزی دھاگے کا نام دیا جاتا ہے جس نے تاریخ کے صفحہ پر قربانی اور مسح کیے جانے کے تمام نظام کو بیان کیا۔
قربانی کا نظام خدا کے انصاف اور رحم کے ساتھ مجتمع ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے موت اور گناہ کا مقابلہ کیا جاتا ہے یہ قانون ایک طرح سے مناسب اور پہلے سےموجود ہو عہد کو توڑنے والا ثابت ہوا اور اس کی پہلے وقتوں کی جانوروں کی قربانی اور ہدیوں کا متبادل کہاگیا ۔ اشتشنا کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ خون بہائے بغیر گناہوں سے معافی ممکن نہیں۔ اس لیے اس جانور کو معصوم ، پاک اور نعم البدل سمجھا گیا ان گروہوں یا افراد کے لیے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی کے لیے تاکہ اس کا خون ان کے لیے بہایا جائے۔
یہ تمام قصہ وہ ہے جو نئے عہد نامے میں عبرانیوں کی کتاب میں مسیح کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ جو کہ پرانے عہد نامے میں موجود ان پرانے مسودات کی حقیقی صورت ہے جو کہ خد اکے برے کی صورت میں قربان کیے جانے کے لیے دیا گیا۔ تاکہ اس نے اس کام کے ذریعے سے انسان کا خدا کے ساتھ ملاپ اور اطیمنان حاصل ہو۔
مسیح کے دنیا میں آنے کا سبب یہ تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی نمائندگی کرے اور کیونکہ وہ گناہ سے پاک تھا اور صرف وہی وہ سب کر سکتا تھا جو میں اور آپ نہ کر سکتے تھے کیونکہ خدا کے بے عیب برہ نے بخوشی اس سزا کو قبول کیا جوکہ دراصل ہمارے گناہوں کی بدولت تھی۔ اگر ہم مسیح کی راستبازی کا موازانہ کریں تو ہم اس کے سامنے کچھ بھی نہیں کیونکہ ہم نے گناہ کیا اسلئے اگر ہم ایک دوسرے سے بھی موازنہ کریں۔ تو شاید ہم صرف ایک ٹانگ پر کھڑے ہوں لیکن جب ہم خود کاموازانہ ایک سچے اور پاک خد ا کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمار ا یہ اعتماد بھی فوراً کھو جاتا ہے ۔کہ ہم میں کچھ اچھائی ہے۔ یہاں ہم سیبوں میں امتیاز نہیں کر رہے۔ جب ہم اپنے اور دوسرں کے درمیان موازنہ کرتے ہیں اور جب ہم خدا کے انصاف کے تخت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ہم بڑی عاجزی سے اس حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں کہ اگر ہم خدا کی مخلوق ہیں اور ایک بڑے درخت کی مانند ہم نے گلے سڑے پھل پیدا کیے ۔خدا ہر چیز کا لکھنے اور بناے والا ہے اور جو اس سے زیادہ یا کم ہو وہ اس کے کردار کے خلاف ہے۔ لہذا اہم میں سے سب قسم کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ جب ہم خود خد اکے سامنے نا کافی راستبازی کے ساتھ موجود ہوں۔ ہم اس کے سامنے بالکل برہنہ ہیں کہ اگر ہمارا ایک بھی عمل ہمارے سامنے آ جائے تو ہم خود کوکیسے سرزنش کریں گے کہ جب ہم زندگی کے بنیادی قوانین کے بھی پاسدار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم خود کو خدا کے انصاف سے نہیں بچا سکتے ۔ جو کہ کاملیت کا تقاضہ کرتا ہے۔
تاہم بائبل کا خدا کو محبت کے خدا کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے اور ہم اس کے محبت بھرے سلوک کا اظہار ہمارےگناہوں کی مخلصی کے لیے برہ مہیا کرنے صورت میں ہے۔ جس سے اس کا ہم پر رحم ظاہر ہوتا ہے۔
خدا کسی قسم کی ہم پر پابندی لاگو نہیں کرتا کیونکہ وہ یقیناً مکمل طور پر انصاف پسند ہے کہ ہمیں اس کی عدالت اور انصاف اور اس کے غضب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تا ہم ہمارے لیے خوشخبری یہ کہ ہم خدا کے غضب سے بچ گئے ہیں اور ہمیں بچایا بھی خدا نے ہی ہے۔ اور یہ سب مسیح کی زندگی۔ تصلیب اور جی اٹھنے کے ذریعے ہوا۔ خدا نے یہ انتظام اس لیے کیا کہ اس نے ہمارے لیے خدا سے ملاپ کا یہ حل پیش کیا ورنہ ہم خدا سے دور اور تباہی کا شکار ہو جاتے۔ اب ہمیں خدا کی طرف سے مکمل یقین دہانی ہے اس لیے اب ہم اس زندگی سے دوسری زندگی میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔
اور ہمیں ابدیت کے حصول کے لیے کسی قسم کے پانسوں کو جھیلنا نہیں پڑا۔ شاید یہ تمام محبت ، رحم اور قربانی وغیرہ آپ کے نزدیک بے معنی ہوں اور شاید آپ حیران ہوتے ہوں کہ خدا کیسے اتنی غیر موازنی صورتحال دیکھ سکتا ہے کہ ہم ایک وقت میں ہی اس قربانی اور رحم کا حصہ بن گئے ہیں۔
جب ہم اس سب کو سمجھتے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم کسی کی محبت میں والدین یا میاں بیوی کی حیثیت سے اپنی بڑی قربانی دے سکیں۔ کیونکہ صرف خدا کی محبت اور اس کی ہمارے لیے قربانی کا انتظام ہی سب سے کامل ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی ہمارے لیے محبت یا اپنی مخلوقات کے لیے محبت لامحدود ہے اور کوئی اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ میرے دوستو خدا نے زندگی اس لیے نہیں دی کہ ہم دوزخ کی آگ کا شکار ہو جائیں۔ اور بائبل بتاتی ہے کہ دوزخ کی آگ دراصل شیطان کے لیے تیار کی گئی تھی۔ تو پھر ہم اس قدر نجات کے لیے تیار کیے گئے اس قدر بہترین انتظام کا خاطر میں نہ لائیں۔ بڑے احترام کے ساتھ میرا آپ کے لیے یہ چیلنج ہے کہ آپ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟
احترام کے ساتھ میرا آ پسے چیلنج ہے کہ آ پ اپنے جر م کے سا تھ کیسے نمٹتے ہیں۔ کیا آ پ جنت کے اہل ہو نے کے لیے اچھے کا م کر تے ہو ئے اس پرحیرا ن ہو ئے یا غو ر کیا ۔
کیا آ پ کو یقین ہے کہ وا قعی اللہ آ پ کی زند گی کو قبو ل کرتا ہے ؟
نتیجتاًخدا کا پیا ر ہمیں بے یار و مد گا ر اور نا امید نہیں چھوڑتا وہ یسو ع کو جس پر ابد ی زند گی کے لیے ہم بھر و سہ کر تے ہیں ہمیں دیتے ہو ئے اپنی افرا ط محبت کو انڈیلتا ہے۔
آ خر میں یسو ع اپنے علم اور خدا کے سا تھ ذا تی تعلق کے ذر یعے آ پ کو گنا ہو ں سے رہا تی ، نا فر ما نی کے قر ض سے چھٹکا ر ہ اور مذ ہبی تو قعا ت کی نٹھر تی سے رہا ئی کے لیے
آ پ کو دعو ت دے رہا ہے۔
متی 30 – 28 :11
اے محنت اٹھا نے وا لو اور بو جھ سے دبے ہو ئے لو گوں سب میرے پا س آو۔میں تم کو آ رام دوں گا ۔
میرا جو ا اپنے او پر اٹھا لو اورر مجھ سے سیکھو ۔ کیو نکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تو تمہا ری جا نیں آرام پا ئیں گی۔ کیو نکہ میرا جو ا ملا ئم ہے۔ اور میرا بو جھ ہلکا ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Crucifixion of Jesus Christ and Islam

اللہ کا نام پاک نہیں ہے

Friday, January 9th, 2015

اسلام میں خدا کا شخصی نام اللہ ہے اس نام پر اور اس میں بیس مختلف مشتقات کا امکان ہےجو ایک مصمہ بنا رہا۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ نام کافر دیو تاؤں کے لیے استعمال ہوتا جس کی عرب کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ پس اللہ کے نام کا استعمال خدا کی طرف سے محمد پر وحی نازل ہونے سے پہلے ہوتا تھا۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Allah’s Name is not Sacred

ایک خوشحال اور مطمئن مسلمان

Friday, December 26th, 2014

میں نے مختلف مذہبی پس منظر کے لوگوں سے بات کی جو اپنے بیان میں بتاتے ہیں کہ وہ اپنے کاموں سے خوش اور مطمئن ہیں۔ ایک شخص مخلص او ر مطمئن ہو سکتا ہے جبکہ وہ ایسا نہیں ہوتا اسی طرح مختلف مذاہب درست نہیں ہو سکتے اگرچہ وہ درست نظر آتے یا محسوس ہوتے ہیں۔ ذاتی طور پر ایک مسلمان ہوتے ہوئے میں حقیقت کو پانے کے لیے کبھی مطمئن نہ ہو سکا خواہ میں نے جنت کو پانے کے لیے کافی کچھ اچھا کیا۔ ایمانداری سے عقیدہ کی تلاوت کی، روزانہ پانچ وقت نما ز ادا کی، صدقہ دیا، رمضان کے مہینے میں روزے رکھے اور ہو سکا تو مکہ کی زیارت کی یہ کچھ مسلمانوں کے لیے بڑا تکلیف دہ ہو سکتا ہے جو ایمان اور زندگی تک رسائی کے مسئلے کا حقیقی حل جہادی شہادت سمجھتے ہیں۔
بائبل کے نقطہ نظر سے اس طرح کی آسمانی نجات ذاتی اچھائی یا عقیدت سے حاصل نہیں ہوتی جبکہ کوئی نہیں جو گناہ کے بغیر ہو۔ اسی وجہ سے میں اپنی راستبازی پر بھروسہ نہیں کر سکتا جو میری نظر میں تو اچھی لیکن خدا کے نزدیک گندی دھجیوں کی مانند ہو۔ ہم اپنے آپ کو آسمانی ترازو پر رکھیں تو اپنی پوری اور مکمل پیمائش نہیں کر سکتے۔ ہم پاک خدا کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ پس نجات اپنے اوپر بھروسہ رکھ کر اور اپنے اعمال اور عادات سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ کریم تحفہ فقت مسیح کی ذات پروردگاری اور اعمال کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
رومیوں 3:23 اس لیےکہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔
رومیوں 6:23 کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خداکی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔
متی29 – 11:28 میں یسوع نے کہا
اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو ں سب میرے پاس آؤ میں تم کو آرام دوں گا۔ میرا جوا اپنے اُوپر اٹھالو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں دل کا فروتن تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

A happy and content Muslim

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

مسلم اور اسلامی ذرائع

Tuesday, January 17th, 2012

بائبل

Download Complete New Testament

www.bible.is/URDPAK/Matt/1/D

 

چار روحانی قوانن

 

یسوع کی فلم

آپ مُسلمان کیوں ہیں ؟

Tuesday, January 17th, 2012

آپ مُسلمان کیوں ہیں ؟

آپ مسلمان کیوں ہیں ؟ کیا آپ نے درحقیقت کبھی اِس سوال کا قیاس کیا ہے یا اِس پر غور کیا ہے ؟ کیا ایسا اِس لیے تھا کیونکہ آپ نے شخصی طور پر زندگی کے لیے روحانی بصیرت یا کسی قسم کے الہام کو حاصل کرنے یا سچائی کے ذرائع کو دریافت کیا ؟کیا ایسا اِس لیے ہے کہ آپ خدا کے ساتھ ذاتی تعلق اورکسی قسم کی اطلاع کہ وجہ سے اسلامی مذہب میں فطرتی طور پر ڈوبے ہوئے تھے ۔

کیا آپ اِس لیے مسلمان ہیں کیونکہ آپ کی تہذیب اور معاشرہ آپ کو ایسا ہونے کی حد بندی کرتا ہے ؟ ذرا اِس کا قیاس کیجے اگر آپ یو ایس میں پیدا  اور جوان ہوئے ہوتے جسے بائبل کا کمر بند قیاس کیا جاتا ہے ۔ اِن حالات کے پیشِ نظر آپ اِن موقعوں کے بارے کیا سوچتے اور اسلامی ایمان پر یقین رکھتے اور اِسے قبول کرتے؟

کیا آپ اِس لیے مسلمان ہیں کیونکہ آپ کے پاس انتخاب کرنے کی آزادی نہیں اور ایسا کرنے سے آپ کو ہر چیز کے لیے لاگت آتی ہے ؟ ایک مرتبہ  پھر تصور کیجیے جی آپ جمہوری معاشرے میں پیدا ہوئے تھے جس نے آپ کو مذہبی آزادی کا حق بخشا ہوتا۔تو  کیا آپ تب بھی مسلمان ہوتے ؟

کیا آپ اِس لیے مسلمان ہیں کیونکہ آپ کا خاندان آپ سے اِس کی توقع کرتا ہے اور کیونکہ وہیں ہیں جو آپ کے دُنیاوی نظریے اور اقدار کو واضح کر تے ہیں ؟ کیا ہوتا اگر آپ کا تعلق کسی ایسے خاندان سے ہوتا جو آپ کو اِس کے متعلق جو آپ کا ایمان ہے اِس بارے فیصلہ کرنے کی اجازت دیتا اور اِس سے قطع نظر جو آپ کی حالت ہے آپ کو مکمل طور پر قبول کرتا ؟

کیا آپ اِس لیے مسلمان ہیں کیونکہ یہی ہے جو ہر دوسرا شخص کر رہا ہے؟ کیا ہوتا اگر آپ ایسی تہذیب کا حصہ ہوتے جو عقائد کے نئے نئے رنگوں کی اجازت دیتا ؟ کیا یہ اب بھی آپ کو اسلام کے ساتھ بغل گیر ہونے کی تلقین کرتا ؟

کیا آپ اِس لیے اسلام کی پیروی کر رہے ہیں کیونکہ آ پ کو مذہبی اختیار والوں سے یہ بتایا گیا اور تعلیمی نظام کے ذریعہ سے ہدایت کی گئی ہے کہ اسلام ہی صرف سچا مذہب ہے ؟ خدا کو نہ ماننے والوں کے مُلک میں پیدا ہونے کا تصور کیجیے جو خدائی زندگی بارے بالکل مختلف فلسفہ رکھتے ہیں ؟ کیا آپ تب بھی مسلمان ہوں گے؟

کیا آپ اِس لیے مسلمان ہیں کیونکہ آپ مسلمان نہ ہونے کے خوف کو یا اِس عقیدے یا ایمان کو قبول نہ کرنے کی باز گشت سے خوفزدہ ہیں کیا ہوتا اگر آپ  کواِن خوف اور رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا؟

کیا ایسا ممکن ہے کہ اسلام کا ایک ایسی مشق کے طور پر احترام کیا جاتا جسے کسی حد تک جغرافیائی مقام سے بیان کیاجاتا ؟

کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص مذہنی نظامیں اُس  کا جُز بن سکتا کہ اِس کے لیے اِس کے اثر سے الگ ہونا تقریبا ً نہ ممکن ہوتا؟

کیا یہ محض اِس پر یقین کرنا ممکن ہے جس پر ہمیں ذہنی طور پر اندھا دھند ایمان رکھنے کے لیے بتایا گیا ہے جس پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا؟

کیا ایک شخص تہذیب سے الگ ہو سکتا ہے جو بیرونی ذرائع سے اُس پر اثر انداز نہ ہو سکتے ہوں ؟

کیا ایک مذہب سیاسی ایجنڈ ے سے لوگوں کو قابو میں رکھنے اور سلجھانے کا راستہ ہو سکتا ہے ؟

کیا مذہب کو آپ کو اپنی شخصی شناخت کو کھونے کا سبب ہونا چاہیے ؟

کیا آپ مخلصانہ طور پر اپنے آپ کو بتا سکتے ہیں کہ اِس بلاگ کو سوچنے کے بعد کہ آپ کو اب بھی اسلام میں اپنے عقیدے کی تصدیق کرنے میں پُرا اعتماد ہیں یا اب بھی آپ کو شک ہے؟ اگر آپ اپنے عقائد میں اب بھی پُرا عتماد ہیں تو پھر کیا آپ تکبر کی ٹھوس سمجھ کی وجہ سے مسلمان بن سکتے تھےجو آپ کو غلط ہونے کی اجازت نہیں دے گا ؟ کیا آپ کا اعتماد آپ کو دغا باز بننے کا سبب بن سکتا ہے ؟

پس مسلمان ہونے میں آپ کا سچا مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ واقعی ہی سچا معاملہ ہے یا کیا یہ آپ کی تہذیب کا بہتر طور پر بیان کر دہ ہے ؟

اسلام کی زیادہ تر نشوونما فوج کی فتح اور بچوں کی پیدائش کے ذریعے ہوئی ۔ کیا یہ واقعی ایمان کی مخلص یا شرعی پاسداری ہے؟

بہر حال یہاں مسلمان تھے جنہوں نے اسلام پر شک کیا اور معجزانہ طور پر یسو ع پر ایمان رکھنے کے وسیلہ اِس نظریہ سے آزاد ہوئے۔ میں نے اپنے بلاگ میں ایک لنک شامل کیا ہے جو مسلمانوں کی گواہیوں پر مشتعمل ہے جنہوں نے اپنے شکوک اور خوف کے لیے ایک او ر حل تلاش کیا ۔

اختتام پر میں آپ کو اِن گواہیوں کو پڑھنے کی پیشکش کرتا ہوں اور پھر خدا سے آپ کے لیے یسوع کو اِس طرح آشکارہ کرنے کے لیے کہتا ہوں کہ وہ خداوند اور نجات دہندہ کے طور پر اُس پر آپ کا بھروسہ رکھے ۔ خوف کو آپ کے ایسا سوچنے سے دور رکھنے کی اجازت مت دیں کہ یہ کسی طرح آپ کو جنت سے دور رکھے گا کہ آ پ کے پاس کسی طرح اِس میں داخل ہونے کی ضمانت نہیں ہے۔

 

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

jesusandjews.com/wordpress/2009/06/14/why-are-you-a-muslim-2/

کیا قرآن مقدس ہے ؟

Tuesday, January 17th, 2012

جب قرآن کی پاکیزگی کا قیا س کر رہے ہوتے ہیں ہمیں لازماً اِس کا تجزیہ اِس کی ابتدائی دعووں کی صداقت کے لیے دوسرے مواد کے ساتھ کرنا ہے ۔

قرآ ن کو اسلام میں بلند مرتبہ حاصل ہےکہ یہ ایمان کے بہت سے عمل کرنے والوں کے درمیان مظاہر پرستی کی چیز ہوتے ہوئے حاشیہ لگا چُکا ہے ۔

اِس میں اضافہ کرتے ہوئے اِسلام اپنے الہام کے لیے دعوے کر چُکا ہے جو کہ دستاویز  کی عبارتی گواہی سے بالاتر ہے ۔

مورمن ازم کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے اِسلام کی روایات کی مشاہبت کو دیکھا ۔ مورمن آسمانی نقش پر ایمان رکھتے ہیں جس کی سونے کی تختیوں پر نقل کی گئی اور اِن ملکوتی مخلوق کے ہدایت نامہ کے ذریعہ یہ آسمانی  تختیاں اپنی جگہ برقرار تھیں اور دوسری زبان میں نقل کیے جانے کے لیے محفوظ تھیں ۔

جوزف سمتھ کو بھی قیاس کی رو سے ایک سچے ایمان کی تلاش کا کام سونپا گیا تھا اور اِس نے اُس کی بہت سی قیاس کردہ جنگوں اور اِسی طرح الہی سچائی کے الہام کی طرف راہنمائی کی تھی ۔اب قرآن کی طرح اِن الہی الہا م کے علاوہ” مورمن کی کتاب ” دستاویزی کاملیت میں کمتر ہے ۔

مسلمان شاید اِس چیز کا دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن ادبیت کے تمام ذرائع سے بڑھ کر کامل اور خوبصورت ہے جو کہ اسلامی تصدیق کے مطابق اندرونی گواہی کے ذرائع کے طور پر الہی الہام ہے ۔

اب یہاں مورمن کی کتاب سےمتعلق جوزف سمتھ کی حالت بھی تھی جس میں اُس نے بیان کیا کہ لکھی جانے والی تمام کتابوں میں یہ سب سے بڑھ کر ہے ۔

بہر حال ، یہ دونوں عبارتیں کاملیت کی کمی کے وسیلہ اپنی الہی ابتدا کے دعووں کے ساتھ آتی ہیں جسے اُن دونوں نے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ۔ دعویٰ کرنا اورہو نا د و مختلف چیزیں ہیں اور ایک شخص جو یہ ثابت کرتا ہے یا کم از کم موزو ں یا معقول گواہی دیتا ہے جو سچائی کے لیے اِس کے پلیٹ فارم کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے ۔

قرآن کے استخراج کواِس کے واحد بانی کے ذریعہ شروع کرنے کے لیے جو کہ ایک قابلِ سوال کردار ہے ۔

محمد اِن الہاموں کے حملے سے اپنی اثبات ِ عقل پر شک کرتا ہے جیسے کہ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ آیا کہ وہ ایک پاگل شخص تھا یا ایک شاعر ۔اُس نے جنات کے قبضہ میں ہوتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کیا اور یہ اُس کے اِن الہام کو حاصل کرنے سے متعلق پُر اسرار تجلی کی وجہ سے تھاجیسے کہ منہ سے جھاگ نکلنے والے رویے یا ایک دھاڑنے والے اونٹ کی مانند ۔ اِس نبی سے متعلق ایک اور سوا ل یہ ہےکہ کیوں اللہ نے ایک ناخواندہ شخص کا ایک خواندہ سچائی کو بیان کرنے کے لیے انتخاب کیا جسے اُس کی زندگی میں ترتیب نہیں دیا گیا تھا ۔

میں نے اس بارے میں ایک پوسٹ لکھی ہے

 

jesusandjews.com/wordpress/2012/01/16/کیا-محمد-ایک-جھوٹا-نبی-ہے-؟/

 

قرآن کی عبارت  کے خالص پن سے متعلقہ ایک اور قیاس آرائی یہ ہے کہ قرآن اپنی ادبیت کو ثانوی ذرائع سے ادھا ر حاصل کرتا ہے ۔ یہ ذرائع بائبل اور بہت سی خارجی تعلیمات ہیں جیسے کہ یہودی مسیحی اسفارِ محرفہ کے ادبی علوم جو ایمانی معاشرے سے باہر تھے کیونکہ اُنہوں نے کبھی الہی الہام کا اندازہ نہیں لگایا تھا ۔ اِن اسفارِ محرفہ کی تحریروں کو دونوں یہودی اور مسیحی تہذیب سے خارج کر دیا گیا تھا اور اِنہیں کبھی سنجیدہ طور سے نہیں لیا تھا ۔

اِس علم ادبیت کے ساتھ یہاں فارسی آتش پرستی کی زبانی روایات کا اثر بھی تھا جنہیں قرآنی تحریروں میں شامل کیا گیا تھا ۔ تو پھر کس طرح اللہ اپنے آسما نی پیغام کو اِس زمینی پیغام رساں کے جھوٹ اور انسانی روایت سے حاصل کر سکتا تھا؟

کونسی کاملیت یا معجزہ انسانی تصور کی ایجاد سے حاصل کیا جا سکتا تھا جسے اُن معاشروں سے رد کیا گیا تھا جو کہ کاملیت سے کمتر ہونے کے طور پر ادبی علم کی ابتدا تھی؟

اگر اسلا م ایک بڑا مذہب ہے تو پھر کیوں یہ دوسری مذہبی تحریکوں کے چھوڑنے والوں سے اِسے حاصل کرنے کی بجائے جس نے تاریخ کے اِس وقت پر اسلام کی تہذیب کو گھیرے ہوئے تھا اپنی خود کے مادی ذرائع سے شروع نہ ہوا ؟یہ کتنا اصلی ہے ؟

اِس قیاس کر دہ مقدس عبارت کو اکٹھا کرتے ہوئے ایک اور سوال آتا ہے جس کا انحصاراور بنیاد نامکمل او ر بکھرے ہوئے ختم شُدہ موادپر تھی جیسے کہ ہڈی ، لکڑی ، چمڑا ،مختلف ٹکڑوں او ر چٹانوں کے طور پر ۔

قرآن کو خطاوارفہم کی  یاد داشت اور تقریر کے وسیلہ حاصل کی گءی گواہی سے مرتب کیا گیا تھا جسے اپنے بے خطا ہونے کی یقین دہانی کے لیے درستگی اور بیش قیمت ہونے کا تقاضا کرنا تھا ۔

کیا اِسے کسی طرح ریکارڈ یا خیال کرنا ہے جسے” تمام کتابوں کی ماں” کے طور پر بیان کرنے کے لیے علمی ادب کے  یاد دلانے والے حصے کے طور پر ہونا تھا یا کیا یہ درحقیقت کسی قدیم ادب سے مختلف نہیں تھا۔

قرآن کو محمد کی زندگی کے دوران یا اُس کی موت کے کچھ عرصہ بعد اکٹھا مرتب نہیں کیا گیا بلکہ اِس کی بجائے گواہی دکھاتی ہے کہ قرآن کو نبی کی وفات کے 150 سے200 سال سے زائد عرصہ میں تالیف اور ترتیب دیا گیا تھا  اور اِسے آخر کارآٹھویں یا نویں صدی میں اولیا ء کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا ۔

سکالرز نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن کے مقولوں کو کسی ایک شخص نےاکٹھا نہیں کیا تھا بلکہ دو سو سالوں سے زائد عرصہ میں لوگوں کے گروہ نے اکٹھا کیا تھا ۔

قرآن کی سب سے پُرانی نقل کو  مائیل میں تقریبا ً790 عیسویٰ میں لکھا گیا تھا جو کہ محمد کی وفات کے تقریباً150 سال بعد تھی ۔

یہا ں تک کہ قدیم رسم الخط بتاتا ہے کہ اِس کا وجود محمد کے وقت سے 100 سال الگ تھا ۔ اِس اتھمان کی نقول میں اضافہ کرتے ہوئے جن کا مزید وجود نہیں اور اسلامی سکالرز کے دعووں کے وسیلہ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کوفی دستاویز جو اِن تکراری دستاویز کی حامل تھی جو اتھمان کے وقت قابل استعمال نہیں تھی اور اتھمان کی وفات کے 150 سال بعد تک نظر نہیں آتی ۔

قیاس کی رو سے یہ بھی کہ عربی زبان اللہ کی آسمانی زبان ہے اور اگر قران کی ابتدا اللہ سے ہوئی تو کیوں قرآن اجنبی الفاظ کے استعمال سے اپنی خبر رسائی کو حاصل کرتا ہے جیسے کہ امریکی ، اسوری ، فارسی ، سُریانی، عبرانی یونانی ، ارام اور ایتھوپی ۔

اگر قرآن بہت تحقیق شُدہ ہے پھر کیوں یہاں عبارتی اصلیت یا خالص عبارت نہیں ہے جو اب بھی دستیاب ہے خاص طور پر وہ دستاویز جو اسلام کی آمد کی اصل تاریخ سے پہلے تھی جس نے پوری طرح اپنے وجود کو قائم رکھا ۔ یقینا ً اللہ اپنے قادرِ مطلق ہونے کے ساتھ اپنے مقدس کلام کی حفاظت کر سکتا تھا ۔

قرآن کی تاریخ سے متعلق اِسے قیاس کی رو سے زید ابنِ تابت کے تحت ہم پہلو کیا گیا جسے محمد کا ذاتی سیکرٹری تھا ۔ زید کو ابو بکر کی ہدایت کے مطابق اِسے لینا اور محمد کی مقولوں کو ایک دستاویز بنانا تھی ۔

نتیجے کے طور پر  ، اتھمان ، تیسرے خلیفہ کے دورِ حکومت میں ،قرآن کو ایک معیار کے مطابق بنانے کے لیے ایک سوچی سمجھی کوشش کی گئی اور اِسے سارے مسلم معاشرے پر ایک عبارت کے طور پر لاگو کر دیا گیا جس نے زیدؔ کی قانونی ترتیب کے لیے مزید نقلیں بنانے کی طرف راہنمائی کی  جبکہ بدلے میں اِس کے مقابلے میں  باقی تمام  دستاویز کو ختم کر ڈالا ۔

کسے ایسا کہنا ہے کہ یہ عبارت معیادی تھی جبکہ ایک شخص کو ایمانداروں کے مقابلے میں حتمی اختیار ہونا تھا جس میں سے کچھ محمد کے ذاتی رفیق تھے ؟

اب ہمارے پاس اِس گزشتہ وجود رکھنے والی عبارت کی بے شمار نقول ہیں ۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ جو ہمارے پاس ہے وہ واقعی سچے قرآن کی نمائندگی کر تا ہے اور کیا محمد اِس کی ساری فہرست کی شناخت کر سکے گا َ؟

اِس کے ساتھ اُس وقت زیادہ تر رسم الخط کی گواہی کو تباہ کر دیا گیا تھا ہمار ے پاس خالص عبارت کو دوبارہ قابلِ استعمال لانے کا درست طریقہ موجود نہیں ہے ۔

زیدؔ ،عبداللہ  ابنِ معسود ، ابو موسیٰ  اور اوبے   اِن  چاروں ساتھیوں کے درمیان فرق ہے جو اپنے درمیان انحراف اور مٹ جانے کو رکھتے تھے اور اب عبارت کے موجد محمد کے ساتھ تعلق رکھنے میں قابل اعتبار اشخاص تھے ۔ عبداللہ معسود کو محمد کی طرف سے قرآن پڑھ کر سُنانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا اور اوبے ؔ نبی کا سیکرٹری تھا ۔

میرا سوال یہ ہے کہ نبی کے ذاتی شاگردوں کے درمیان کونسا رسمِ الخط سب سے زیادہ درست اور مستند تھا ؟

اتھمان کون تھا جسے درستگی کا حتمی اختیار ہونا تھا جبکہ یہاں اور بھر مستند عبارتیں تھیں جن کی شناخت دوسرے معاشروں کے ساتھ تھی ؟

یہ بھی کہ جب زید نے عبارت کی تالیف کی وہ ” پتھر ” مارنے سے متعلق کجھ باتوں کو شامل کرنا بھول گیا ۔

اب اِس عبارت کو آٓخر کار اکٹھا کرنے کے بعد اِس پر بعد میں نظر ثانی کی گئی اور الحجاج سے جو کوفہ کا گورنر تھا اِسکی تصحیح کی گئی ۔

اُس نے بنیادی طور پر 11 عبارتوں میں ردو بدل کیا اور آخر میں اُس کی تبدیلیاں کم ہو کر سات رہ گئیں ۔ اِس عمل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہفسہ عبارت ، جو کہ اُسکی اصل دستاویز تھی جس سے اِس عبارت کو لیا گیا تھا ، جسے بعد میں مروانؔ نے ضائع کر دیا تھا ، جو کہ مدینہ کا گورنر تھا ۔

قرآن میں ایک اور مظہرِ قدرت تنسیخ ہے جو کہ اندرونی تردید وں کے ساتھ برتاو کرنے کا طریقہ کار ہے جنہیں عبار ت کی اصلاح کے طور پر واضح کیا گیا ہے ۔ میں حیرا ن ہو رہا ہوں کہ کیسے آپ کسی ایسی چیز کی درستگی کر رہے ہیں جو پہلے سے ہی کامل ہے جبکہ اِس الہام کو صرف 20 سال کے عرصہ میں ڈھانپاگیا اور جسے کسی اصلاح کی ضرورت نہیں جسے تہذیبی معیاروں کی اظہار کے لیے سہولت کار کے طور پر پیش کیا گیا ۔

 تنسیخ کی تعداد کو 5 سے 500 تک ہونے کے لیے کہا گیا ۔ دوسرے کہتے ہیں کہ 225 کے قریب ہے ۔ جو یہ ہمیں دکھاتا ہے وہ یہ کہ تنسیخ کی سائنس بلا شبہ غلط سائنس ہے ، جیسے درحقیقت کوئی نہیں جانتا کہ کتنی آیات کی تنسیخ کی گئی ہے ۔

اِس داخلی تردید میں اٖضافہ کرتے ہوئے یہاں سائنسی کے ساتھ ساتھ گرائمر کی غلطیاں بھی ہیں ۔

اِن تمام بدنامیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی احادیث بھی ہیں جو اچانک 9 ویں صدی میں منظر عام پر آئیں جو کہ حقیقت کے 250 سال بعد ہے ۔

600000 اصل احادیث کہتی ہیں جو اُس وقت گشت کرتھی تھیں اُن میں سے 7000اِن روایات کو 99 فیصد چھوڑتے ہوئےقائم رہیں جن کی غلط طور پر درجہ بندی کی گئی ۔

اب اگر 99 فیصد غلط ہیں تو پھر کیسے ہم 1 فیصد پر بھروسہ کر سکتے ہیں جسے البخاری نے منظور کیا ؟مسلم روایت نے زبانی قصہ گو یا کوسس کی ترسیل کے ذریعے بھی اِسے ترتیب دیا جس کے کاموں کو آٹھویں صدی سے پہلے تک تالیف نہیں کیا تھا ۔ اِن کہانیوں کو عام لوگوں سے لیا گیا اور اِنہیں سنوارا گیا جنہیں اسلا م کے بگاڑ کے لیے لایا جاتا رہا ۔ یہ بھی کہ اگر آپ کبھی ٹیلی فون کے کھیل میں مبتلا تھے یا ایک ہی وقت میں لوگوں کی بڑی تعدد کو کہانی سُنانے والے ہوں آپ اکثر اِس کا اختتام ایک مکمل فرق کہانی کے ساتھ کرتے ہیں ۔

اب اِسے دو سو سالوں تک پھیلائیں اور آپ اِس مشق کے آخری نتیجےکے لیے کیا سوچتے ہیں ؟

کیونکہ قرآن کا اللہ کی نقل کے طور پر احترام کیا گیا یا عجائبات کے طور پر جس میں مبالغہ آرائی ہو جو آزادی کے بغیرہو جو بہت سے حروف میں غلط ہو ۔ قرآن اپنے جواب دینے کی بجائے بہت سے سوالات چھوڑتا ہے ۔

کیا قرآ ن مواد کا اعلیٰ شان حصہ ہے یا کیا یہ اپنی مشہور ی کا دعویٰ کرتا ہے ؟

کیا یہ کسی دوسرے مواد کے لیے غیر مساری طور رپر عبارت کی خوبصورتی پر قابض ہے ؟ یہ ایک دیکھنے والوں کے کان کے لیے رائے چھوڑتا ہے جیسے کہ یہاں کثیر تعداد میں مستند مواد ہیں جن سے قرآن ادھار لیتا ہے ، جن میں یہ دوسروں کی آراء کی بنیاد پر سبقت لے جاتا ہے ۔

کتاب کے لیے اِسے ثانوی طور پر اکثر بے ربط ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور بُری طرح شائع کیا گیا اور یہ دوسروں کی تنقید اور جانچ پڑتال کے لیے بھی کھڑا ہونے کے قابل نہیں جو اِس کے بااختیار ہونے کے نظریہ پر مزید حقیقی ہونے کے قابل ہوں ۔

دوسروں کے لیے یہ اُس تحریک میں اِسے بے خبر اطاعت کی طرف ناقابلِ اعتراض ہونے کے ساتھ فرمانبرداری کے ساتھ گلے لگایا گیا جو عبادت کرنے والوں کے لیے اِس کے مواد کےبارے تنقیدی طور پر سوچنے کو روکتا ہے ۔

عبارت کے لیے سوال کرنا اللہ سے سوال کرنا ہو گا اور اُس کے نبی سے جو کہ مسلمان سوچ سے بالا تر ہے جسے اِسے ابدی باز گشت کے ساتھ ہیبت ناک نتائج کی صورت میں دھوکہ دہی اور سر کشی کے طور پر دیکھنا تھا ۔ آپ شاید کہتے کہ اسلام کے اِن عارضی جملوں کے باوجود اِس کا قائم رہنا قرآن کے لیے ایک معجزہ ہے اور اب میں گواہی کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ میرے لیے یہ ایمان رکھنا ایک معجزہ ہو گا کہ یہ پیغام ایک الہی الہام ہے ۔ نتیجے کے طور پر میرے پاس واقعی قرآن کے متعلق مزید آراء نہیں ہیں ۔ صرف ایک چیز جسے میں کہنے کے لیے چھوڑا ہے یہ کہ مجھے اُمید ہے کہ میرے الفاظ میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے اور اِسی لیے میں نے اپنے مسلمان دوستوں کے لیے بے قدری دکھائی ہے ۔

ایسا کرنا مُشکل ہے کیونکہ جب ذاتی ایمان میں کسی دوسری چیز کی نسبت جسے مذہبی سوچ کی ذہنیت کے لیے چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا ہو شامل کرنا مشکل ہوتا ہے پھر اِسے اکثر دھمکی یا عداوت کے طور پر دیکھا جائے ۔

میں آپ سے معافی مانگتا ہوں اگر وہ سب کچھ جو میں نے کیا وہ آپ کے غصے کو بھڑکاتا ہے عبار ت کے لیے آپ کی بدگمانی کی نسبت جسے آپ نے مقدس ہونے کے طور پر پکڑا ہوا ہے ۔

دوبارہ میر  ا ارادہ ناراض کرنا نہیں بلکہ سچائی کا دفا ع کرنا ہے اور اِس رستے پر چلنا ہے جہاں کہیں یہ ہمیں لے جائے ۔

آخر میں اِس موضو ع پر مزید معلومات  کے لیے آپ جے سمتھ کی جانب ست لکھے گئے مضامین کا حوالہ دے سکتے ہیں جن سے میرا تعلق ہے جب میں اِس بلاگ میں بھیجتا ہوں ۔


خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

jesusandjews.com/wordpress/2009/11/09/is-the-quran-sacred/

کیا کعبہ مقدس ہے ؟

Tuesday, January 17th, 2012

اگرچہ عرب  کا مذہب اللہ کی اسلام کے ایک سچے خدا کے طور پر عبادت کرنے کے لیے آغوش میں لیے ہوئے ہے لیکن اِس نے ابھی تک اپنے آپ کو اپنے مشرکانہ ماضی سے جُدا نہیں کیا ہے ۔

کعبہ جو مکعب نماعمارت مکہ میں واقع ہے اسلام کا سب سے مقدس مقام ہے اب اسلام کی آمد سے پہلے اِسے مظاہر پرست آستانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔

اِس کی بناوٹ کا بنیادی پتھر سیاہ شہابی پتھر ہے جسے آسمان سے گِرا ہوا کہا جاتا تھا اور اِس کی سیاہی کا تعلق انسانی گناہ کی تاریکی کے ساتھ تھا ۔ آج مسلمان حج کے دوران اِس پتھر کو توقیر یا عبادت کے عمل کے طور پر بھوسہ دیتے ہیں ۔

اسلام سے پہلے کی تہذیب میں قدیم عرب  کے لوگ اِس مذہبی چٹان حجرہ کے زیر اثر تھےجس نے اُن کے اپنے رسمی اعمال کے حصہ کے طور پر اِن سیاہ پتھروں کی قدر بڑھائی ۔ عرب کے لوگ پتھروں کی پوجا کرنے والے تھے جس میں اُن کے قبائلی گروہ اپنے کعبہ کی عبادت گاہ کو رکھتے تھے جو اُن کا اپنا سیاہ چٹان کا گھر تھا جس میں وہ عبادت کرتے تھے ۔

کعبہ کے ساتھ منسلک رسومات میں سے ایک آستانہ کا محاصرہ کرنا یا طواف کرنا ہے ۔ اِس کا نظریہ کہ کیسے مظاہر پرست عمل وجود میں آیا یہ ہے کہ اِن قبائلی گروہوں کو کعبہ کے گرد دائرہ لگانا تھا جسے چاند ، سوج ، اور ستاروں کی پوجا کرنے کے لیے آسمانی چیزوں کی تحریک کے لیے پسند کیا جاتا تھا ۔ اِس عمل میں اِن قبیلوں کواِس پتھر کو بھوسہ دینا بھی تھا جس پر خدا یاں روحوں کی طرف سے سکونت اختیار کرنے کے لیے ایمان رکھا جاتا تھا۔اِس چٹان کو چومنا اور اِس پتھر کو چھونا خاص برکت لانے کے لیے قیاس کیا جاتا تھا۔

کعبہ کی سیاہ چٹان کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے چاند کے خدا ہوبالؔ کی پوجا بھی شامل ہے ۔

عرب تہذیب کے دوسرے پہلو جن کا تعلق عرب معاشرے سے متعلقہ اُن کے قدیم مظاہر پرست ماضی کے ساتھ ہے “مناؔ پر پتھر مارنا ، “صفا اور مروا” بھاگنا “جو کہ اِن بُت پرست لوگوں کا بنایا ہوا قانون ہے جسے دو بُتوں میں بھاگنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ، اور آخر کار ، ” تعریف” جو اُن کے مرے ہوئے آباو اجداد کی تعریف کی قدیم رسم کا مذاق اُڑاتی ہے اور اب اِس عمل کو اللہ کی تعریف کے ساتھ نئے سرے سے قائم کیا گیا ہے ۔

عرب کی تہذیب اپنے مظاہر پرست ماضی سے واضح طور پر ٹوٹتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی ہے اگرچہ یہ اپنے نئے نشان

لاالہ الااللہ ( واحدانیت ) کے تحت اِس کا دعویٰ کرتی ہے ۔ یہ مذہب اسلام میں  ہمہ وقت مشترکہ عرب کی تہذیب کی مشق نے ایک خالص مذہبی جُز کی بجائے ایک آمیزش کو پیدا کر دیا اور کعبہ کواسلام کے ایک مقررہ ستون کے طور پر نمایاں کر دیا جو عیاں کرتا ہے کہ یہاں اِس مذہبی ساخت کو تعمیر کرنے کے لیے کچھ شگاف موجود ہیں ۔

لہذا اِسلام  درحقیقت ایک سچا ایمان ہونے کے طور پر کتنا زیادہ اپنی یکتا شناخت کو لاتا ہے ؟ یہ ظاہر ہے کہ اِس نے اپنی ساخت کو یہودی مسیحی اعتقا د سے اپنایا اور اپنے اندون کو اپنے مظاہر پرست ماضی کی پسندیدگی سے سجایا اور معمور کیا ۔

کیا یہ واقعی سچا مذہب ہے یا محض دوسرے مذہبی دُنیا کے مشترکہ نظریات کے ساتھ ایک مقاملہ مذہب کے عمل کو جوڑتے ہوئے بہت سے نظریات کے انبار سے اُدھار لے رہا ہے ؟

کیا آپ دعوے کے ساتھ حلف اُٹھاتے ہیں اور ایک ایسے مذہب کی اطاعت کرتے ہیں جو اپنے مذہبی ماضی کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے پاک صاف نہیں ہے ؟ کیا اسلام نئے نمونے پر مرتب ہو چُکا ہے اور بُت پرستی کی ایک ایسی ہی ساخت کے طور پر شناخت رکھتا ہے جو ایک باریک نئی دھات کے ساتھ ڈھکا ہوا ہے اور ایک ملکوتی مخلوق کی طرف سے دئے گئے الہام کی بنیا د پر نیا مذہب ہے ؟ شاید جو اسلام کے پردہ کے پیچھے چھپا ہوا ہے وہ یہ ہے ایک بڑا بُت بمقابلہ دیوتاوں کا ایک قطب۔

اِس بلاگ کو لکھتے ہوئ میں نے اِس معاملے سے متعلق بہت سے مختلف ذرائع کو اکٹھا کیا ہے اور میں نے اِس معلومات کو ترتیب میں مخلص اور بے داغ تشخیص قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔

میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اِس بلاگ کومحض ایک بدنام مشہوری کے طور پر لیتے ہوئے برخاست کرنے کا ارادہ مت کیجیے ۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرونگا کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اِس معاملہ کے متعلق اپنی ذاتی تحقیق کیجیے ۔

اِس بلاگ کے ذریعے میں اسلامی عقیدے کو چیلنج کی پیشکش کر چُکا ہوں مسلمانوں کے لیےاُس غیر ضروری غیبت اور جھوٹےالزامات سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے جسے وہ مقدس ہونے کے طور پر تھامے ہوئے ہیں ۔ میں اپنے بہت سے مسلمان دوستوں کو پہچانتا ہوں جو اپنے خدا کے تصور کے لیے مخلص اوردیندار ہیں اور میں اِس کی قدر کرتا ہوں ۔ اب جو میں اُنہیں کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں وہ اُنہیں حقیقی معلومات سے راہنمائی حاصل کرنے کی اجازت دینا ہے کہ وہ اپنی بہتر فرمانبرداری اور اطاعت کے لیےبہتر فیصلے کریں ۔

اختتام پر اگر آپ مسلمان ہیں میں آپ کی دعا کے وسیلہ حوصلہ افزائی کرونگا کہ خداوند سے اسلامی ایمان اور عمل کے پیچھے چھپی سچائی کے متعلق پوچھیے ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Is the Ka’ba sacred?

کیا محمد ایک جھوٹا نبی ہے؟

Monday, January 16th, 2012

کیا محمد ایک جھوٹا نبی ہےیہاں بہت سے مذاہب اور فرقے ایسے ہیں جو ایک شخص کے دھیان و گیان کے ذریعے خاض مکاشفہ پانے کا دعوی کرتے ہیں۔ اب ہمیں یا تلاش یا دریافت کرنے کی کوشش کرنی ہے کہ کونسی حالتیں قابل امتیاز طور پر سچ اور کونسی فرضی اور جھوٹی ہیں۔ کوئی بھی الہٰی مکاشفہ کا دعوی کر سکتا ہے لیکن اس کی دصاقت کو جاننے کے لیے اسے جانچ پڑتال کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ ایک گوہی ایک شخص یا گواہ کی صداقت ہی کی وجہ سے بہتر ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی شخص کو عدالت مین ایک شریحی گواہ کے طور پر کھڑا کرنے جارہے ہوں تو پہلے آپ کو اس کی فراغت کے درجے کا احاطہ کرنا ہوگا۔ کیا ان کی گواہی ان کے کردار کی موزونیت کی بنیاد پر قابل بھروسہ شمار ہوسکتی ہے یا کیا انہیں ایک ناکارہ گواہ کے طور پر دیکھا جائے گا۔ پہلی باتمیں مذہبی تحریک کے موجد اور بانی کے کردار کا قیاس کرنا چاہتا ہوں جیسے اسلام کے طور پر بیان کیا گیا۔
محمد ایک ایسا شخص تھا جس نے روحانی معاملات پر غوروخوص اور دھیاوگیان کرنے کے لیے خود کو وقف کردیا۔ان لڑائیوں نے آخر کار اس کی راہنمائی روحانی مخلوق کے ساتھ تجربہ کرنے کی طرف کی جس میں ان کی سوچ ایک جن کے لیے تھیں۔
کہ ان الہام کی وجہ سے وہ ایک شاعر یا ایک دیوانے شخص کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یہ معاملات اس پر بہت دباؤ ڈالتے ہیں اور اس نے دو مرتبہ خود خوشی کرنے کی کوشش کی۔
ابتدائی اسلامی ذرائع یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ شیطانی اثر کے نیچے تھا۔ جب اس نے سورہ 53 لکھی۔ میرے لیے اس کی ساری الہی تحریک کے دعوؤں کی شریعت پر سوال اٹھانے کا سبب بنی یہاں ناصرف ان دعوؤں کی فطرت اور ان کے ابتدائی ذرائع کے بارے سوال ہے بلکہ اسکی شخصی صفات اور کردار کے بارے بھی سوالات کو دیکھیں گے۔ اس نے فوجی فتوحات کے ذریعے طاقت اور جبر کا استعمال بھی کیا جبکہ اسکی ضرورت اسے عقائد رائج کرنے کے لیے تھی۔ یہ ایک ایسا مذہب تھا۔ جسے اپنے اثروکنٹرول کو جاری رکھنے کے معاملہ میں کسی بھی طرح اور جہاد یا پاک جنگ کے طور پر جاری رکھنا تھا۔ اور آج بھی اسلام کے پس پردہ یہی طریقہ کار فرما ہے۔ یہ خون بہانے سے شروع ہوا اور آج بھی خون بہاتے ہوئے جاری ہے۔ لہذا ہم ایسے مذہب کو دیکھتے ہیں جو اپنی شناخت کو محبت کے انسانی انداز کی سرفرازی کی بنیاد پر نہیں پاتا بلکہ اس کے بجائے اس کا مرکز انسانی حاکمیت کی بنیاد پر ہے۔ جو انسان کی تباہی اور بر بادی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ طاقت کی اس بدسلوکی سے ساتھ وہ ایک عائشہ نام بچی سے سے شادیکرتا اور فائدہ حاصل کرتا ہے اور ایسی لڑکی سے شادی کی جو صرف 9 سال کی ہے اور ابھی بالغ نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق کی تذلیل کی دوسری مثالیں عورتوں کے ساتھ برتاؤ ہیں جس میں ضروری ہو تو تھوڑا مارنا بھی شامل ہے۔ وہ الٰہی مکاشفہ کا سہارا لے کر کثرت ازدواج کی اجازت دیتا ہے قرآن 3:4 کی نفی جہاں چار بیویوں کی حد مقرر ہے اس نے اپنے لیے 9 بیویاں رکھنے کا حق لیا۔ دوسرا معاملہ زینب سے بیہودہ شادی کا ہے جسے اسکے لے پالک بیٹے نے طلاق دی اور محمد نے اسے اپنی بیوی کے طور پر لے لیا اسکی وجہ جنسی بیداری تھی کیونکہ جب اچانک غیر مناسب وقت پر وہ اپنے بیٹے سے ملنے گیا تو اس نے اسے تقریباً بغیر کپڑوں کے دیکھ لیا۔ اس کے علاوہ مسلمان قیدی عورتوں کے ساتھ شادی کئے بغیر جنسی تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ خواہ اس کے شوہر زندہ ہوں ۔ محمد نے اپنے پیروکاروں کو عصمت فروشی جسے موتہ کہتے ہیں کی مشق کی اجازت دی جس پر آج تک عمل جاری ہے۔ جس میں مسلمان جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے پیسے دے کر تھوڑے وقت کے لیے شادی کرتے اور پھر طلاق دے دیتے۔
اس نقطہ پر یہ تلاش کرنے کے لیے کہ یہ مذہب ایک قابل سوال شخص کے ذریعہ قائم ہوا تھا۔ جس میں پائیداری کی کمی تھی۔ کسی اور مخالف دریافت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یہاں تاریخ میں اور بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنے مقاصد اور نظریات کےفروغ کے مذہبی پلیٹ فارم کو استعمال کیا ۔ بہت سے نظریات تعصب اور تنگ نظری کی بنیاد پر جو کہ انسانی قابلیتوں سے با لا تر تھے جو انسانی نسل کی بربادی اور تباہی کی طرف راہنمائی کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ بہت احمقانہ ہوتاکہ اسے فطرتی اعتبار سے صرف جناتی مخلوق کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ لوگ سٹالین اور ہٹلر کو پسند کرتے ہیں جوکہ جھوٹے نبی تھے۔ جنہوں نے بہت بڑے اختیار کو حاصل کیا جس نے انہیں بگاڑ دیا اور ان برے دانشمندوں کو تباہی کی طرف لے گیا۔ یہ حیران کن ہے کہ کیسے لوگ ہٹلر کی کیزریٹک قیادت کی پسندیدگی کے پیچھے ایک جگہ اکٹھے ہوئے جو خود ذہنی طور پر ناپائیدار تھا ہم سب گمراہ ہیں اور آج ان حاقتوں پر غور کرتے ہوئے حیران ہوتے ہیں کہ کیسے ممکنہ انسانی طور پر یہ بیسویں صدی میں رونما ہوا اور کیوں لوگ اس مکمل دھوکے کے پراپوگنڈہ اور جھو ٹ کا یقین کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے بالکل یہی ظہور آج ابھی تک اسلام کی خواہش کے ساتھ رونما ہو رہا ہے یہ بیوقوفی ہے جو انسانیت اور تہذیب کے ہر پہلو کی پسندیدگی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ لوگ اس کے دعوؤں اور اسبا ب کو سہارا دیتے ہوئے بالکل خاموش ہیں۔ اس کے تباہ کن چنگل کا ادراک کیے بغیر کہ چارو ناچار طور پر ہٹلر کی حکومت کی مانند ایسا ہی ایک تباہ کن دن آئے گا۔
ساری دنیا پردے پیچھے اس ذلا لت اور برے آدمیوں کے اس اندھیرے کی گہرائی اور ان کی بڑی غلطیوں اور جرائم کی شناخت کر چکی ہے جو انہوں نے ہمارے دنیاوی معاشرے میں سرزد کیے جس میں انہیں حد سے زیادہ سمجھ میں قصور وار پایا۔ اسلام کا ئناتی اثر فروغ پاتا ہوا ایک ایسا مذہب ہے جس نے جس نے وبائی امراض میں انسانیت کو متاثر کیا۔ ہر سال یہاں ہزاروں لوگ غیر منصفانہ طور پر اذیت بر داشت کرتے اور مرتے ہیں کیونکہ ایک شخص کے پاس قابل دریافت الہام کی رویا تھی۔
کیا آپ واقعی اسموت اور تباہی کے رستہ پر چلنا جاری رکھیں گے؟ اگر آپ اسلام کے پیروکار ہیں تو میں آپ سے کہوں گا کہ دفاع کے لیے اپنی رغبت کو ایک طرف رکھیے جس کا آپ پاک ہونے کے طور پر احترام کرتے ہیں اورسنجیدگی سےاس گواہی پر غور کریں۔ اور خداوند سےآپ پر اسے آشکارہ کرنے کے لیے دعا کیجئیے۔ جو زندگی دینے آیا اور کثرت کی زندگی جس کا نام یسوع ہے۔
متی16:7-15 جھوٹے نبیوں سے حبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لوگے جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Is Muhammad a false prophet?

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012