Archive for the ‘Islam’ Category

محمد اور معجزات

Saturday, January 10th, 2015

یہ قرآن بتاتا ہے کہ وہ واحد معجزہ جو محمد نے دکھایا یہ تھا کہ اس نے قرآن کی وحی کو پڑھا تھا، سورہ

52-49:29

اور 90:17-93 میں نے قرآن کےبارے میں مزید لکھا ہے حوالہ
کیا قرآن مقدس ہے ؟
اگر یہ قرآنی عبارتیں سچ تھیں تو پھر یہ دوسرے اسلامی ادب سے متصام ہیں جسا کہ سید بخاری حدیث میں بیان ہے کہ محمد نے ایک بہت غیر طبعی اور غیر مرئی معجزہ دکھایا کہ ایک روتے ہوئے درخت کے تنے پر ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دی۔783:4اور مکہ کے لوگوں کو یہ معجزہ دکھایا کہ حیرام پہاڑ کے درمیان چاند کو دوٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔208:5
یقنیا یہ صرف افسانوی قصے ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور یہ ناگ حمادی عبارتوں کو طرح جو کہ فرضی اور افسانوں قسم کی کہانیوں کو بیان کرتا ہےجو کہ حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ کچھ مسلمان تو اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ وہ اس قسم کے فرضی مسیحی ادب کو ثبوت کے طور پر استعمال کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق مسیح کے دکھوں کا انکار کرتے ہیں جو کہ اس کی تکلیف دہ لیکن عالی شان موت نفی کرتا ہے۔ میں نے ایک اور مضمون لکھا ہے مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں جس میں اے تاریخی واقعے کی بائبل مقدس میں سے گواہی اور ثبوت بھی دیا ہے۔
مسیح کی مصلوبیت اور اسلام

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حدیث جیسا کہ ناگ حمادی اور محمد مسیحکی زندگی کا بہت سالوں بعد آئے اس لیے ان کو بہت ساوقت مل گیا کہ وہ مسیح کی زندگی کے بارے میں اس قسم کے فرضی بیانات کوگھڑ کر بتاسکیں

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Muhammad and Miracles

Holman QuickSource Guide to Christian Apologetics, copyright 2006 by Doug Powell, ”Reprinted and used by permission.”

یسوع آخری نبی ہے

Saturday, January 10th, 2015

حال ہی میں میرے ایک دوست نےمجھےمحمدکےآخری اورحتمی نبی ہونے کےبارے میں بتایا۔اس کے مطابق یہ عقیدہ عبرانی صحیفوں سے آیااوراستثناہ ۱۵:۱۸میں دیکھاجاسکتاہے۔
اس کلام کا ارادہ اسلام کے بانی میں اپنی تکمیل کا نہ تھاجو عبرانیوں کے لیےغیر مذہب اور جھوٹےدیوتایا بت کی نمائیدگی کرتا ہو۔یہ پیشن گوئی غلط استعمال کی گئی تھی۔
موسٰیٰ نے تو یہ الفاظ عبرانیوں کے لیے کہےتھےاور یہ عرضی ایک عبرانی ساتھی کی جانب سےعبرانیوں کو دی گٰئی تھی۔تورات اسرائیلی لوگوں کے ساتھ عہدسے شروع ہوئی اور اعمال ۲۲:۳میں پطر س کےمطابق اور اعمال ۳۷:۷میں ستفنس کے مطابق اس کی تکمیل آخری پیغمبر یسوع میں ہوئی۔
موسٰی نے کہا اسرائیل کے بچوں خدا تمہارے بھائیوں میںسے میری مانند ایک نبی برپا کریگا۔اس متن کی تفسیر میں لفظ بھائیوں ایک اہم نقطہ ہےجسے عبرانی ورثےکے لوگوں پر لاگو کیا گیا۔اگرچہ عرب نسل اور عبرانیوں کے درمیان آبائی تعلقات ہیں۔لیکن یہ صحیفہ صاف طور پر اسرائیل اور کتاب کے لوگوں پر لاگو ہوتاہے۔
مسحیوں نے اس نوشتہ کے مقدس متن کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے اسکی تحریف یا اسے غلط بیان نہیں کیا۔
چونکہ تورات یہودیت کا مرکز ہےجسے یسوع کو نبی کا عنوان دینے میں کوئی ہمدردی نہیں۔آپ اس بات پر اتفاق کرے گے کہ یہودیت کے مرکزی دھارے میں یسوع کے عظیم نبی ہونے پر انکار ہو رہا ہے اور جبکہ اسلام کے اس متن کو یوں استعمال کرنے پر اتفاق نہیں کریں گے آپ اسرائیل کی پیغمبرانہ وزارت کے مطالعہ میں یہودی فرقہ کی جانب سے بنیادی ردِعمل کی طور پراکثر استرداد دیکھ سکیں گے
عظیم صحیفوں میں سے ایک یسعیاہ نبی کی معرفت ہےجس میں یسوع کی آمدکےبارے میں بتایا گیا ہے۔یسعیاہ میں وہ یسوع کو مصیبت ذدہ خادم کےطور پر بتاتا ہے۔وہ آدمیوں میں حقیرومردودجبکہ خدا کے نزدیک مقبول تھا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ آپ یسوع کی آخری اور حتمی حیثیت جس میں کلام کے مقصد کی حتمی تکمیل ہوتی ہے انکار نہ کرے۔
کیونکہ وراثت کی شناخت اور یسوع کی شخصیت میں آخریت کی تکمیل کو متعارف کرانے میں پیغمبرانہ آواز کی خدمت ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا کا کلام سنتے اور قبول کرتے ہے۔
عبرانیوں 1:1-2
جس کے کان ہو وہ سنےکہ خدا کا روح کیا فرمارہاہے۔کیا تم خدا کی پیغمبرانہ آواز سن رہے ہو؟

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Jesus the Last Prophet

یسوع خدا کا بیٹا ہے

Saturday, January 10th, 2015

اسلام بتاتا ہے کہ خدا کا کوئی بیٹا نہیں ۔ میں اس نقطہ کی بنیاد پر آپ سے اتفاق کرونگا۔ کیونکہ یسوع کی پیدائش منفرد اور معجزانہ تھی۔ میں مانتا ہوں کہ خدا نے رواج کے مطابق جنسی تعلقات سے پیدا نہیں کیا۔ یہ عقیدہ پیگن میتھالوجی پر مرکوز ہے ان کے بے شمار فرقے اس کے متعلق سیکھاتے ہیں۔
ڈاکٹر مائیکل برون سامی زبانوں کے شعبے میں ایک ماہر ہے۔ جو بائبل اور یہودیوں کی ثقافت کی اصلی زبان ہے۔ اُس نے اس تصورکی نوعیت پر تبصرہ کیا۔ شروع میں ہمیں یہ بات یاد رکھتی ہےکہ اکیسویں صدی میں دماغ قدیم عبرانی خیال کے خطوط پر نہیں سوچتا۔
دراصل عبرانیوں کے کلام میں لفظ خدا کا بیٹا کئی بار استعمال ہوا جسے خد ا نے اپنے بیٹے کے طور پر اسرائیل بادشاہوں اور فرشتوں کے لیے کہا۔ یسوع مسیحا ہے ۔چنانچہ وہ اس عنوان کا حتمی نمائندہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کی اولاد بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خدا ہے۔ آخر اسے آسمانی میزبانوں اور فرشتوں سے اوپر بلند کیا گیا ہے۔ اسنا دینے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہے کہ اسے بیٹے کا خطاب دیا جائے۔ بائبل میں عبرانی لفظ بیٹے کے لیے “بین” ارامی میں “بار” اور عربی میں ابن ہے۔ لفظ بیٹے کے استعمال کو سمجھنے کے لیے اسے لغوی اولاد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
یا پھر استعار میں کہا جا سکتا ہے۔ نبیوں کے بیٹے کا مطلب ہے نبیوں کے شاگرد۔ جب یہ کسی بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے الہی گود لیا بیٹا۔ جیسا کہ 2 سیموئیل 14:7 میں لکھا ہے۔ ” اور میں اسکا باپ ہونگا اور وہ میرا بیٹا ہو گا اگر وہ خطا کرے تو میں اسے آدمیوں کی لاٹھی اور بنی آدم کے تازیانوں سے تنبیہ کروں گا۔ اور خروج4: 23-22 میں اسرائیل کی قوم کے لیے بھی یہ ہی کہا گیا۔ جہاں لکھا ہے “اور تو فرعون سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پہلوٹھا ہے اور میں تجھے کہہ چکا ہوں کہ میرے بیٹے کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کرے اور تو نے اب تک اسے جانےدینے سے انکار کیا ہے سو دیکھ میں تیرے بیٹے بلکہ تیرے پہلوٹھے کو مار ڈالوں گا۔ جبکہ بیٹے کا دوسرا مطلب ان کے لیے ہے جو ایک ہی جماعت کے ہوں جیسے فرشتے۔ یہ کہتے ہوئے میرا یہ مطلب نہیں کہ فرشتے خدا ہیں لیکن اسی طرح انہیں “بینی ایلوہیم” یا خدا کا بیٹے کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ اسرائیل کے فرمانبردار لوگوں کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے۔ ہوسیع 10:1 جہاں لکھا ہے “تو بھی بنی اسرائیل دریا کی ریت کی مانند بے شمار و بے قیاس ہوں گے اور جہاں ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم میرے لوگ نہیں ہو زندہ خد ا کے فرزند کہلائیں گے”۔
آخر میں اس لفظ کو عنوان کے طور پر یا مخصوص مشن کے طور پر دیکھتے ہیں پس یسوع مسیحا ہوتے ہوئے اس کردار پر پورا اُترتا ہے۔ حتمی طور پر اسکا خدا کے بیٹے کے طور پر شمار کیا گیا۔ نتیجتاً “باپ اور بیٹے” کی شرائط ایک جدید مادی ہم عصر نقطہ نظر بائبل کے برعکس مشابہ ہونے کے لیے ایک مجازی طریقہ ہوسکتی ہیں۔ پس اپنے تعصب یا عام استعمال کو قطع نظرکر کے یہ لفظ آپ کی ذاتی ثقافتی اظہار یا مقامی زبان کے حصہ کے طور پر قدیم بائبل کے دنیاوی جائزہ میں غلط طریقہ سے لاگو کیا جا سکتاہے۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Jesus is God’s Son

* Of special note regarding the title and term ‘Son of God’ , it is used in its most unique and supreme sense as a reference to the divinity of Jesus as the Christ in Mathew 28:16-20, John 5:16-27, and Hebrews 1.یسوع کی الوہیت اور اسلام-Urdu 

اسلام کا عورت کے بارے میں نظریہ

Saturday, January 10th, 2015

اسلام کا عورتوں کے بارے میں نکتہ نظر عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی معاشروں میں غالباً مختلف قوانین ہیں تاہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں عورتوں کو کسی حد تک زندگی میں ماتحت کردار دیا گیا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر جانبدار انہ ہے اور کچھ صورتوں میں عورتوں کے ساتھ غیر ضروری استحصال کے سلوک کی اجازت دیتا ہے۔
قرآن 34:4 میں عورتوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دی گئی ہے انسانی فطرت کے مطابق اپنے جیون ساتھی کے ساتھ محبت بھرا رشتہ استوار کرنے کے لیے اعتبار کی فضا فراہم کرنا ضروری ہے ۔ جس کا مرکزی مقصد اپنے ساتھی کی حفاظت اور دیکھ بھال ہے۔ لہذا اس قسم کا اصلاحی عمل محبت کو کیسے ظاہر کر سکتا ہے؟ اگر یہی صورتحال ہے تو جب خاوند کوئی غلطی کرنے تو اس کو سدھارنے کے لیے کیا طریقہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ شوہر کی غلطی پر اس سے بھی بالکل ایسا ہی سلوک کیا جائے تا وقتیکہ وہ غلطی پر نہ ہو کیونکہ اخلاقی طور پر اسکو زیادہ برتری حاصل ہے؟
شاید اخلاقی لحاظ سے عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے حدیث میں یہ سمجھا گیا کہ عورتوں کو سدھارنے کی غرض سے ان پر سختی کی جائے۔ آخرکار حدیث کا یہ موقف ہے کہ اس نقطہ نظر کو پیش کیا جائے کہ عورتیں روحانی اور اخلاقی لحاظ سے پست ہیں اور برائی کی طرف جلد راغب ہو تی ہیں۔ . حدیث فرماتی ہے کہ عورتوں کی اقلیت آسمانی گھر پر قبضہ کے ساتھ جبکہ جہنم کی رہائش گاہ میں جانے والوں میں اکثریت ہیں مسلم،والیم. 4، حدیث 6597، صحفہ. 1432 اور مسلم،والیم. 4، حدیث 6600،صحفہ1432
اسلامی تصورات سرور یالطف کی اقدار پربھی مرکوز ہیں جو مردوں کی جنسی پرستی / جنسی خواہش کے گرد گھومتی ہیں ۔ خدا کا خوف رکھنے والے مسلم مرد کو جنت میں ایک دن سو کنواریوں کے ساتھ مباشرت کرنے کا لطف یا خوشی عطا کی گئی ہے۔ (سورہ 55) ۔ کیا عورتوں کی اقلیت کو جو اسے اپنا جنت کا گھر بناتی ہیں۔ ایسا ہی صلہ ملے گا؟ ایک بیوی جو پوری زندگی کیلئے شادی کے بندھن میں بندھی ہے یہ جانتے ہوئے اپنے آپ کو کیسے عزت کی نگاہ سے دیکھ سکتی ہے کہ ایک دن اس کا شوہر جنت کے محل میں غیر عورتوں کی ساتھ جنسی سرور اور جنسی ہوس کی لذت کے ساتھ لطف اندوز ہو گا۔
اگر مستقبل میں جنت کی حوالے سے اس کا یہ مقصد ہے تو پھر اس زمینی مختصر زندگی میں بیوی کے ساتھ تعلق کے لیے اس کا کیا مقصد ہے؟ اگر وہ ابدی زںدگی میں جسمانی خوشی یا سرور سے لطف اٹھانے کے لیے راضی ہے تو کیا آپکو یقین ہے کہ اب آپ کے ساتھ اسکا تعلق اس مقصد کو پورا نہیں کرتا۔ شاید ایک بار وہ ختم ہوجائے اور اس زندگی مین اپ سے مطمئن ہو تو پھر آپ کے پاس جنت میں اس کی پیروی کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہوگا۔ اب اس کی ضروریات دورسرے(دوسری عورتیں) پوری کریں گے۔
مزید برآں قرآن اور حدیث بیوی کی پرواہ کیے بغیر شوہر کی جنسی تشغی کیلئے مطالباتی نظریہ پیش کرتے ہیں (قرآن 2:223) شکتا المصابیح صفحہ 691 ، ترمذی ، بخاری والیم 7 ، حدیث 121 صفحہ 93 ) اس کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی تقاضوں میں مختلف اور جنسی عدم توازن پایا جاتا ہے جس میں لڑکیوں کے جنسی اعضا کو کاٹ دیا جاتا ہےکہ وہ جنسی خواہشات سے دور رہ سکیں ۔ یہاں اس مسئلے پر بحث کی جاسکتی ہے کہ کیا محمد نے تشدد کے ایسے واقعات کی ممانعت نہیں کی تھی جبکہ ابھی تک بعض ممالک میں ایسا کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں کے پاس جنس پرستی کے قانونی فارم ہیں جس کے تحت مردوں کے درمیان جنسی خواہش کی تشغی کے لیے عارضی شادی کی اجازت دی جاتی ہے۔
ایک اور چیز جو شاید اس فارم مین غیر واضح ہے تاہم کئی خرابیاں پیدا کرسکتی ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا ہے ۔ جو خاندانی نظام میں رہتے ہوئے معاشرتی مسائل پیدا کرے کا سسب بن سکتی ہے۔ اس ثقافتی تجربات کی بنیاد پر انسانیت پر ان کے بدترین اثرات کا احساس دلانے کیلئےکسی ما ہرِ سماجیات یا انسا نی اشتھنائی کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی معاشرے کیلئے اخلاقی اقدار یا قوانین بناتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس کے خلاف بحث کرے تا ہم تمام دنیا میں موجود انسانوں کی بنیادی ضروریات کی بات کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہےکہآپ اسلامی ثقافت کے جال میں پھنسے ہوں جہاں آپ اپنےآپکو قیدی اور تنہا یا بہت اداس محسوس کرتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے الگ کچھ نہیں جانتے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ کچھ عورتوں کو اسلام کے جرائم کی وجہ سے جسمانی اور جذباتی برائیوں کےذریعے سے شکار کیا جارہا ہے آپ ان حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یا پھر شاید آپ نے اسلامی ثقافت کے ساتھ خود کو منسلک کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو سکھایا گیا ہو کہ ان معاملات پر آپ کے ذہن میں کچھ نہیں آسکتا جس سے آپ پر آئندہ اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
حدیث کے مطابق عورتوں کے پاس ایک محدود یاکم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ اس نقطہ نظر سے عورت کی گواہی کوآدھا یعنی نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ کسی بات کا فیصلہ کرنے کے لیے محدود یعنی ناکافی ہے۔ جب لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے کے لیے ہدایت کی جائے کہ وہ کمتر ہیں تو پھر ان کو آسانی سے قابو میں کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مردانہ غالب مذہب سےآپ یہی حاصل کرتے ہیں جہاں سالمیت پر جسمانی طاقت حکمرانی کرتی ہے۔ بخاری والیم 3 ، حدیث 826 صفحہ 502۔
میں جانتی ہوں کہ بلاگ تلخ ہے اور مجھے امید ہے کہ میں نے اپنے کیس یا معاملے کوبراہ راست پہنچ یا رسائی کے ذریعے سے زیادہ بیان نہیں کیا۔ انصاف کے ساتھ میں اسلامی کلچر یا ثقافت کی انکسا ری کو سراہ لیتا ہے۔ پھر بھی اس کا اختتام عورتوں کو غلام بنا کر رکھنے کے معنوں کی وضاحت نہیں کرتاجوان کی انسانیت کو کم کردیتے ہیں۔
اے مردو میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ اسلام کے دعوے پر اور عورتوں کے ساتھ سلوک اور ان کے رویوں پر تنقیدی نظر ڈالو۔ حتی کہ اگر آپ ایسی ظالمانہ حرکات نہیں بھی کرتے پھر بھی ان اسلام کے پیروکاروں کی مختلف ذرائع سے جنہیں مقدس متن سمجھا جاتا ہے،حما یت کی جا تی ہے اور ان کی قد ر کی جا تی ہے ۔ یادر رکھیے یہ عورتیں ہماری مائیں ہیں جو ہمیں اس دنیا میں لائی ہیں اور جب ہم لاچار تھے تو انہوں نے ہمار ی دیکھ بھال اور نگہداشت کی۔ یہ عز ت و احترام کی حقدار ہیں۔ جو خدا نے ان کے بلند کردار کی بدولت انھیں دیا ہے۔
یعنی ہماری ذاتی دیکھ بھال اور ہمیں آدمی /مرد بنانے میں آپکو بتانا چاہتی ہوں کہ اسلام نے اپنے خدا تخلیق کیے ہوئے ہیں اور اگرچہ میں آپکی لگن کی قدر کرتا ہوں ۔ ایک مذہب میں پائے جانے والے دعوؤں کو چیلنج کرتا ہوں جن میں تباہی کا راستہ پایا جاتا ہے۔
بائبل میں خدا کے کردار کی بنیادی تعریف محبت ہے اور اسلام اس خدائی نظریےکے برعکس کھڑا ہے۔ خدا منصف ہے اور اسی طرح وہ رحیم ، مہربان ، نرم ، شفیق ، برداشت کرنے والا اور امن پسند ہے ۔ یہی خوبیاں شاید آپ اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہیں تاہم اس کے پیروکاروں میں اس کا ثبوت کہاں ہے؟
اگرچہ فنڈز کا ایک مختصر حصہ غریبوں کیلئے مختص کیا جاتا ہے تاہم عام طور پر آپ اسلامی انسانی حقوق کی تنظیمیں نہیں دیکھتے خاص طور پر دوسرے معاشروں کی طرف جوکہ بے دین یا کافروں کی فطرت خیال کی جاتی ہے۔ اسلام ایک روحانی مذہب نہیں بلکہ خوف اور دہشت کے غاصبانہ قبضے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ آپ کی پراوہ نہیں کرتا بلکہ اس کو اصل دلچسپی دنیاوی غلبہ ہے ۔ ہو سکتا ہے آپ ایک معتدل مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہوں اور اسلامی عقیدے اور پیروی کے بارے میں مختلف خیال رکھتے ہوں۔ یہ اسلام ہی ہے جو آپکے کردار کر آپکے اپنے لیے آزاد تصور کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر آپ یہ دعوی کریں کہ آپ اس قسم کے اسلامی نقطہ نظر کی پیروی نہیں کرتے تو پھر شاید آپ نام نہاد مسلمان ہیں اور لاشعوری طوپر پر آپ اپنے دل کی گہرائی میں کہیں جانتے ہیں کہ کچھ کمی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ خدا کی حقیقی محبت کا تجربہ کرنے کیلئے ایک کھلا دروازہ ہے۔
کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے یسوع مسیح کو بھیجا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔
اب اے خواتین مجھے یقین ہے کہ آپ ان ذہنی صلاحیتوں کی مالک بن چکی ہیں۔ کہ آپ ایک سچی محبت کرنے والے خدا اور ایک گمراہ کرنے والے مذہب میں امتیاز کرسکتی ہیں۔
آخر میں میں دعا کرتی ہوں کہ میرے کچھ کہنے سےآپ کی عزت نفس کو دھچکا لگا ہو۔ میں نے یہ آپ کا دل دکھانے کیلئے نہیں کیا۔ اگرچہ میری یہ تقریر چیلنج کرتی ہے۔ لیکن میں نے یہ سب نفرت میں نہیں لکھا۔ میں آپکے لیے روحانی بہتری یا بھلائی چاہتا ہوں ۔ اور جب کبھی معاشرے میں قید ہوتے ہیں آپ معاشرتی حدود سے پرے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
آخر میں میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے سامنے اپنے دل کو کھول کر بیان کردیں اور ایماندار بن جائیں۔ میں جانتاہوں کہ پہلے پہل آپ خوفزدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ لگن رکھنے والے لوگ اپنے جذبے یا لگن سے منحرف نہیں ہونا چاہیے پھر بھی میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ خدا سے مانگیں کہ وہ آپ پر اپنی محبت مسیح کی صورت میں ظاہر کرے۔
یہاں کچھ ویب سائٹس ہیں جو آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
www.bible.com/bible/189/jhn.1
knowgod.com/ur/fourlaws/0?utm_source=4laws&utm_medium=website&utm_campaign=4laws-visit&utm_content=urdu&cid=dp-website-4laws-gds-qq-4lawsref-ur-4944628045000

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Islamic view of Women

اسلام کا نظر یہ کہ با ئبل بدل چکی ہے

Friday, January 9th, 2015

مسیحی فکر و تشویس میں با ئبل کے ادب کی تو ثیق کی ضروت سب سےآگے ہے ۔اسِ موزوع پر میں نے دو پیغا م لکھے ہیں ۔ایک ادبی نقطی نظر اور دوسر تا یخی جا ئزہ۔جسے میں ان دعووں کی تصدیق کے لیے ثا نو ی (اضا فی با ئبل )ذرائع کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔
jesus andjew.com/wordpress/2010/02/03/is-the-bible-reliable/
jesusandjews.com/wordpress/2014/01/19/does-archaeology-disprove-the-bible/
دوسرا یہ کہ میں نے پہلے ہی انہے بلا گوں میں بنا دیا ہے ۔میر یہ خیا ل ہے کہ با ئبل کی سا لمیت پر سوال اُٹھانے سے پہلے کچھ دوسرےعنا صر کے با رے میں سمجھ لینا چا ہیے ۔جیساکہ با ئبل کا انبیا کہ خُدا ، خُدا کے کلام یا مقدس صحفیوں میں مداخلت یا غلط بیا نی پر سزا دے گا استشا 2:4
مکا شفہ 18:22دراصل دھوکا دینا ، جھوٹ اور جھوٹی گو اہی کا عنصر عیسایت کے اخلا قی معیار کے خلاف جا تا ہے ۔
جب کسی کے اعمال پر نفساتی اور روحا نی پہلو سے غور کیا جا رہا ہو جو ایک مستند مومن ہو تو من کو تبدیل کرنے کی جرات نا قابلِ تصور ہے
یہ جو از نہیں بنتا کہ دوسروں میں تر میم کرے اور بضا ہر تضادات اور مضحکہ خیز بیانا ت کو جوبا ئبل کے متن کو غیر حما یتی یا ،مشکو ک بنا سکتے ہیں ،نہ ہٹا ئیں ۔چنا نچہ اِس پو ری سا زش کا نظریہ اِس لحا ظ سے قا بل ِ اعتبا ر نہیں ۔
دو مختلف مذہبی گروہ جن کا نا م یہودی جو پرانے عہد نا مہ یا تنکھ کے محا فظ ہیں اور غیر یہودی جو نئے عہد نا مہ کے فا ثق ما لک ہیں ۔اِن کی کتابوں میں تبدیلی کا امکا ن نہیں کیو نکہ یہ دونوں اپنے ایک جیسے اور عام متن کا اشتراک کرنے ہیں حتکہ قمران پر بحیر ہ سردار سکرال جو تقریباً 1000سال پرانا مسوراتی متن سے پہلے کا ہے ،بائبل کی ثا لمیت کو ظا ہر کر تا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ مخا لف ِ گروپ کو جوبا ئبل کی تبدیلی کا دعویٰ کر ر ہے ہیں یہ جا ننا ضروری ہےورنہ وہ مسابقتی دنیا وی جا ئزہ کے طور پر موجود نہیں رہ سکیں گے یہ ان کے لئے اور بھی مناسب ہے کہ اِسے غلط ثابت کر نے کے لئے ، کلام کے اعدادوشما ر کی بنیا د تک رسا ئی حا صل کریں جبکہ یہ درُست نہیں ہے
اِس سب کے بعد یہ ظا ہرہے کہ جب اِ ن سے پو چھا جا ئے کہ با ئبل کسی نے تبدیل کی ،کب تبدیل ہو ئی اور کیا تبدیلی ہو ئی ۔ اس موڑ پر ثبوت کی کمی کی وجہ سے اِ ن الزامات کا سامنا کر نے کے لئے اِ ن کے پا س اِن تینوں سوالوں کا منا سب جواب نہیں ہو گا ۔
میرا خیال نہیں کہ با ئبل کا انکا ر کر نے کے لئے قرآن کی طرف سے کو ئی مضبو ط نقطہ بن سکے جیسا کہ سورہ87:2،3:3،163:4،68:5،94:10، 5: 46-47
مذید قرآن سورہ 64:10،34:6، 6: 114-115
میں بتاتا ہے کہ خُدا کا کلام کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا ۔
چنا نچہ خدا کے کلام کے مطا بق انا جیل تورات اور زبور جو کہ خُدا کا کلام ہے میں ردوبدل نہیں ہو سکتی ۔
مجھے یقین ہے کہ میرے مسلمان دوست با ئبل پر سوال اُٹھا تے ہو ئے اپنی پا ک اور عظیم کتاب پر کو ئی مستند دلیل نہیں دیں گے ۔مذید برآ ان کے مطا بق واقعی خُدا کے الفا ظ تورایت ، زبور اور انا جیل میں نا زل ہو ئے ممکنہ طور پر خُدا کے الفا ظ کو تبدیل شدہ کہنے پر یہ با ت قرآن خود پر لا گو کر تا ہے ۔
آخر میں یہ کہ قرآن کے مطا بق محمد کے زما نے میں با ئبل درست ہے تویہ اُن مسلمانو ں کے لئے ایک مسلہ بنتا ہے ۔جو با ئبل کی تبدیلی پر الزام لگا تے ہیں ۔جو با ئبل آج ہم دیکھتے ہیں وہی صدیوں پہلے مو جو د تھی اِس میں کو ئی تبدیلی نہیں آتی ۔ کیو نکہ اسلام سے پہلے ابتدائی چرچ کے بزرگوں کے اقوال اور کلام کے ثبوتوں کو ملا کر تصدیق کی گئی ۔
قرآن کے مسیحی کلام کے الہام ، تحفظ اور اختیار کی حما یت کے متضاد با ئبل کی تبدیلی کا نقطہ نظر محمد کے پیغمبرانہ آفس کو رد کرتا ہے ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

An Islamic view that the Bible has been corrupted

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

اسلام اور امن

Friday, January 9th, 2015

میں اپنے مسلمان دوستوں سے یہ بات اکثر سنتا ہوں کہ اسلام ایک صبر یا امن سے بھرا ہو ا مذہب ہے اور چند ہی ایسے انتہا پسند ہیں جو اسلا م کا نام بد نام کر رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو پچھلی 14 صدیوں میں اسلام کے نام پر 27 کروڑ سے ذائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔ امریکہ میں ہوئے 9،11 کے صانحے سے لے کر دینا بھر میں 20 ہزار حملے دہشت گردوں نے کئے ہیں چنانچہ یہ انتشار یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اقدار خیالات اور عقائد جن کے گرد اسلام گھومتا ہے یعنی جہاد اور حیران کن شہادت کے نظریے ہی ہیں جو اسلام عقیدے کی تشریح میں انتشار نفرت اور غصے کو ایک واجب چیز کے طور پر قبول کر نے کی تجویز دیتے ہیں ۔ تب اور اب بھی اسلام کو اسی طرح تصور کیا جاتا ہے اس نے زور کے ذریعے قوموں کو اپنا غلام بنایا ہے اور ڈرا اور دھمکا کر اپنی اس سوچ کو برقرار رکھا ہے ہم فتح مند ہیں ۔ چنانچہ قرآن کے اللہ کی عزت میں اور تاریخ کو قائم رکھنے پر میں مسلمانوں پر تنقید نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنی تعلمیات کی پیروی بڑی فرمابرداری کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ بات قرآن میں واضح ہوتی ہے ۔ سورۃ 123:9:73:9،29:9
خاص طور پر ،اسلامی الہات کے مطایق یہ بھی ایک وجہ کے طور پر نمایاں ہوتا ہے کہ اگر اللہ ایسے پسندوں کے حملوں کی اجازت دیتا ہے تو یہ ہی اسکی مرضی ہے۔ اس لیے لامذہب لوگوں سے اس معاملے میں نہ لڑنا اللہ کے مقصد کو پورا کرنے سے انکار ہے ۔حتی کہ میں ان اعمال کی مذمت کرتا ہوں اوریہ دیکھنا مشکل بھی نہیں کہ وہ قرآن پرعمل کررہے ہیں۔ چنانچہ میں سوچتا ہوں یہ واجب ہے آپ سے پوچھنا کہ ان قرآنی آیات کو پورا نہ کرکے کیا آپ یختہ ایماندار نہیں ہیں؟ اس طرح تو آپ قرآن کے کچھ حصوں قبول نہیں رہے۔ نیزان چند ہ آیات کو استعمال کرنا جوآپکے مذہبی نظریات سے مطابقت رکھتی ہو عالمی طور پر کچھ نظریات کی تردید کرکے دوبار اپنے حساب سے تشریح کرنا مذہب کو چھوڑنے کی ایک شکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دینا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے اور باقی دہشت گردی کی مخالفت نہ کرنا ایک عہداور اجازت کی شکل اختیار کرتاہےان سب کاموں کے لیے جو کہ انسانیت کے سنگین جرائم ہیں۔ اگر آپ دہشت گردی کے خلاف ایسا ہی یقین رکھتے ہیں تو کیا آپ اس کام کےخلاف خطرے میں بھی اٹھ کھڑے ہونے پر رضا مند ہیں؟ حالانکہ مسلمان اکثر یت میں امن کے حامی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ اسلامی راہنما ئی کا ایسا عنصر ہے جو کہ اسلامی معاشرے میں اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ اکثریت میں مسلمان اپنے ذاتی کاموں کی حمایت کریں گے اور دنیا کے دوسرے خیالات کی مخالفت کریں گے اور دنیا وی طور پر اس مسلے تک پہنچے کی کوشش کرنا اور اسے جمہوری او رسفارتی طریقے سے حل کرنا مغربی طریقہ ہے نہ کہ رسمی اسلامی طریقہ۔
آپ پہلے تویہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن واضح طور پر دوسروں کے بارے بات کرتا ہے۔ سورۃ 109،256:2 اسلام کے غالب آنے اور پُر اثر ہونے سے لگتا ہے کہ یہ ایسا نظریہ ہے جو مختلف مراحل سے گذر کر مضبوط ہوتا چلا گیا اور آج جب یہ اپنے پورے زور میں ہے اسلامی قوانین کے ذریعے معاشرے کو قابو میں رکھتا ہے جس میں غیر ایماندار بھی شامل ہیں۔ اکثر یہ کام مسیحو ں اور دوسرےگروہوں پر ظلم کرنے اور انہیں ستانے کی طرف لے جاتا ہے ۔میں ایک گروپ جسکا نام وآئس آف دی مارٹا ئرز ” کی مدد کرتا ہوں یہ ایک مسیحی تنظیم ہے جو ان لوگوں کی مدد کرتےہیں جو ان برے کاموں کانشانہ بنتے ہیں۔
www.persecution.com
انکی ویب سائٹ ہے ۔ تقریبا 3 لاکھ مسیحی ہر سال مختلف طور سے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔یہ نوکری اورمالکیت سے ہاتھ دھوبیٹھنے سے لے کر بندی بنانے اور قتل کردینے تک ہو تاہے۔ یہ بات مجھے اپنے دوسرے نقطے کی جانب لے جاتی ہے کہ مسلمان اکثراوقات غیر مستقل ہو تےہیں۔تب وہ قرآ ن کی یہ بات کر تے ہیں کہ مذ ہب میں کو ئی مجبوری نہیں ہے” جبکہ ان معاشروں میں جہاں ان کا غلبہ ہے وہ غیر ایمانداروں کو ستا تے ہیں،ان کو زبر دستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کرتے وہ اس کے لیے جہاد کفر کے قوانین کو استعمال کرتے ہیں۔ اور غیر مسلمانوں کو دوسرے درجے کہ شہری سمجھتے ہیں۔ کیا کسی نے کبھی سناہے کسی اسلامی گروہ نے کسی لامذہب کی مدد کی ہووہ صرف اور صرف اپنے لوگوں اورمعاشرے کے بارے سوچتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو ترجیح نہیں دیتے کیونکہ وہ اپنے آپ کو برتر محسوس کرتے ہیں۔ قرآن 110:3،6:98
لیکن مسیحیت ہی ایسی ہے جس نے سب انسانی حقوق کے لیے بڑے اقدام اٹھائے ہیں۔ ہسپتالوں سے لے کر یتیم خانوں جسے اداروں کو قائم کرنے تک۔ حال ہی میں سیریا کے مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں۔ جنہوں نے عراق میں پناہ لی ہے اور اُن اس کے اپنے مسلمان ساتھیوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ جو بھی ہے اسلام کی ترقی معاشرے میں اس طرح شروع ہوتی ہے جیسے وہ ایک قوم کوا پنے قابو میں کر لیتا ہے اور یہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقلی ، بچوں کی پیدائش اور سرمایہکاری اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ذرائع ہیں ۔ اسلام کو ایسے طریقے سے آہستہ آہستہ پھیلایا جا سکتا ہے جس میں آغاز سے اختتام تک دوستی ضرور ہو۔ ایسا کہ قرآن میں ملتا ہے۔ 28:3
اس طریقہ کو عمل میں لایا بھی جا رہا ہے ابن کا تھر کی نصسیروں میں جہاد کی وضاحت مختلف ہے اور جس کو دوسرےاسلامی مفسر اُسے اسلام کے مخالف قرار دیتے ہیں۔ ابن کا تھر کی تفاسیر یورپ اور شمالی امریکہ میں مقبول ہو رہی ہیں۔ آخر پر یہ کہ ایک جہادی کے لیے اپنی بقا اور اسلامی ریاستوں کو قابو میں دیکھنے اور شرعی قانون کے مطابق چلنے کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ باتیں اس حد تا بھڑ جاتی ہیں کہ مذہبی جنگوں کی شکا اختیار کر لیتی ہیں۔ حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے کہ وہ الہامی کتاب اور عقیدوں کو ماننے والے ہیں۔ چنانچہ دباؤ کا خیال کسی بھی درجے پر ثابت نہیں ہوتا نہ ہی یہ “صرف جنگ نظریے” کے قریب آتا ہے جب یہ ایک نمایاں فوج بن جاتی ہے۔
اس اختیار کو اپنے ہی ارکان میں مار دینے کی دھمکی کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ شخصی حقوق کی تو کوئی سوچ ہی نہیں ہوتی۔ آزادی ایک فریب نظر چیز ہے جہاں صرف اسلامی رسم ورواج جو کہ خاندان ، حکومت اور قرآن کے طرف سے راج کرتا ہے۔ اختتام میں یہ ہی کہوں گا کہ اس بات کو تسلیم کرتا ہوں صابر اور اچھے مسلمان بہت سے ہیں جو دوسروں کے اسلامی عقائد پر اس طرح عمل کرنے پر افسردہ اور مایوس ہوتے ہیں۔ میں خوش ہوں کہ ایسے بہت سے مسلمان ہیں جو ان عقائد پر نہ تو یقین کرتے رکھتے ہیں اور نہ ہی ان پر عمل پیرہ ہوتے ہیں۔ شاید ان کے اندر ان عقائد کی پوشیدہ طور پر تردید کرنے کی سوچ ہو لیکن خوف کے باعث کس سوچ کو آواز نہ دے سکتےہو۔نیم شعوری حالت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے آپ ہی کی وجہ سے دھوکا کھا رہا ہو اور ان عقیدوں کو سمجھ ہی نہ پا رہا ہو جو اسلام کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ مسلمان اندرونی طور پر قتل کرنے کے اس عمل کی اخلاقی معنی کے پہچاننے کے لیے تیار ہیں۔ میرا یقین ہے کہ وہ مسلمان جوا پنے نظریات میں معتدل ہیں وجہ جدید برائیوں سے بھرے انسانوں جیسے کہ ہٹلر ، سٹیلن ، ایڈی آمن ، پول پوٹ اور ہیرو ہیٹو کو دیکھنے کے بعد روعمل کے ساتھ جواب دے رہے ہیں۔ اور وہ ایسے کاموں سے جو ان لوگوں نے کئے خوفزدہ ہیں ۔کیونکہ یہ بھی کوئی مختلف نہیں اس کا م سے جو مسلمان دہشت گرد کرتے ہیں۔ ابھی بھی بد قسمتی سے کجھ مسلمان انسانی معاشرے میں ہونے والی تباہی کےلیے نہ ہی کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور نہ ہی ذمہ داری لیتے ہیں۔ یہ مجھے یسوع کی کہی ایک بات یاد دلاتا ہے کہ اے شخص تو پہلے اپنی آنکھ کا شہتیر نکال پھر دوسرے کی آنکھ کا تنکا نکالنا۔ وہ اپنی آنکھ سے ٹھیک نہیں دیکھتے تو دوسروں کے نظریات سے ٹھیک طور پر کیسے واقف ہونگے۔ جو کہ حقیقی فطرت سے متعلق ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ معتدل مسلمان یہ جانتے ہیں کہ ان کی تحقیق ایک ایسی ہستی کی ہے جو چاہتا ہے زندگی کو فروغ ملے او ر اس نے اپنے پیار کی بڑی مثال فطرت کے ذریعے ہمیں دی ہے۔ اگر خدا ان محدود چیزوں / مخلوقات کو ایک محدود پیار کے ساتھ خلق کیا تو ایک لامحدود خدا اپنے بے انتہا پیار کو انسانوں کے لیے کتنا زیادہ ظاہر کرے گا۔ خد ا نے کثرت سے یسوع کے ذریعے اپنے پیار کو دنیا پر ظاہر کیا اور یسوع کو دے کر ہمارے گناہوں کا قرض اتار دیا۔ جس کے وسیلے سے ابدی زندگی ممکن ہوئی۔ خدا نے نفرت کو نہیں بلکہ محبت کا استعمال کیا اور اپنی شخصیت کی خصوصیت کو ظاہر کیا۔ اختتام میں میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس بلاگ کو پڑھا اور میں چاہوں گا آپ سلام کے معاملے میں مخلص اور ذہن کو تبدیل کرنے والی سوچ رکھیں۔ آخرکار ، ایک آزاد خیال کو سمجھنا اپنے عقیدے کے نظام کے بارے دوبارہ سے سوچنا ہی ہے۔ اور یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ انسانی حقوق اور زندگی کی تقدیس کے مخالف ہے یا نہیں۔
میں آپ سے یہ بھی کہوں گا کہ آپ حوصلہ بلند رکھیں تاکہ سچائی کو تھامے رکھیں حتی کہ آپ کو کسی معاشرے یا ثقافتی اقدار جو آپ پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان کی تردید ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
انسانی وجود کا ایک بڑا حصہ ہے جہاں خدا نے مذہب کی آخرکار تشریح کر دی ہے۔ ایک مذہب جو قربانی والی محبت کے تعلق کے طور پر بیان کیا جائے۔ یہ محبت یسوع سے شروع ہوگی اور اسکے شاگردوں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ یہ محبت ہے جو عزت کے لائق ہے کیونکہ یہ اپنی خدمت کرنانہیں ہے۔ یہاں تک اگر ردعمل میں پیار نہ ملے پھر بھی خدا کے خادم پیار کرتے ہیں کیونکہ یسوع کا پیغام ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی جانب پھیر دو۔
پیارے دوستوں ایک بہتر طریقہ ہے اور یسوع کہتا ہے وہ میں ہوں۔ یسوع ہی راہ ہے جو موت کو نہیں بلکہ زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ ڈر ، غصے ، نفرت اور قتل کی بجائے پیار کا ہونا ضروری ہے۔ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اپنے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح بخش دیا تاکہ جو کوئی ایمان لائے ہلا ک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Islam and Peace

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “Jihad, Jizya, and Just War Theory” in the Christian Research Journal Vol.36/No.1/2013

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

کیا اللہ ایک ہے؟

Friday, January 9th, 2015

اللہ کے ایک اکیلا ہونے کے پہلو کی ابتدا عرب اثرورسوخ اور ان کے آباواجداد کی اصنام پرستی سے نہیں ہوئی۔ مجھے عجیب لگتا ہے کہ عرب ثقافت غیر ملکی توحید ی خیالات اپنائے گیا جو یہودی اور مسیحیوں دونوں کے عقائد اور آثار پر مبنی ہیں۔
اسلام کی بنیاد غیر ملکی ایمان کی منادی ، شعور اور احساس جرم کی اساس پر ہے۔ جب تک انحراف ، باطل اور بد عنوانی کا ایک دوسرا ذریعہ ہے اور اس کی سچائی کو ماننے کا دعوی کرے (مسلمان) تو عظم الشان اور اختیار کا مالک خدا جو کائنات کا بادشاہ ہے ان پر کبھی سچائی ظاہر نہ کرے گا۔ کون کسی سے حق ادھارلے؟ کون یہاں ہے جس سے متاثر ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے مذہبی پہلوؤں کا انتخاب کیا جائے جن کی منفرد شناخت کے حصول کے لیے اسلامی دنیاوی جائزہ سے مطابقت ہو۔ یہاں بے شمار ایسے فرقے ہیں جو اس طرح کے انکشافات سے رونما ہوئے ۔ صرف یہواہ کے شاہدین کا اور مورمن کا مطالعہ کریں جو اسلام سے ملتا جلتا تجربہ رکھتے ہیں۔ جوزف سمتھ محمد کی طرح سچائی کی تلاش کر رہا تھا اور اسے بھی اس کی طرح ذاتی طور پر فرشتے کے ذریعے الہام ہوا۔ جوزف سمتھ کی ملکوتی ملاقات یقیناً اسکا اپنا منفرد پیغام تھا جو محمد کو دئیے گئے ملکوتی مکاشفہ سے بالکل مختلف تھا۔ پس سچا کون ہے ؟اسلام کی طرح دنیا بھر میں فرقوں میں ایک سب سے بڑا اور تیز رفتار فرقہ جوزف سمتھ کا مشہور ہے۔ اس مذہب کے ایک ارب سے زیادہ پیروکار ہیں۔
پولوس رسول نے اسلام کی آمد اور جوزف سمتھ کی ماں کی آنکھ میں اسکی چمک سے پہلے اس رحجان کے بارے میں خبردار کیا۔
گلتیوں 1: 8 میں بتاتا ہے کہ
لیکن ہم یا آسمانی کا کوئی فرشتہ بھی اس خوشخبری کے سوا جو ہم نے تمہیں سنائی کوئی اور خوشخبری تمہیں سنائے تو ملعون ہو۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Is Allah One?

یسوع کی الوہیت اور اسلام

Friday, January 9th, 2015

یسوع مسیح کی خدائی پر غور کرنے کے لیے ایک شخص کو پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بائبل قابل اعتماد ذریعہ ہے یا نہیں۔ میں نے ایک مضمون میں مسلمان کے نقطہ نظر کو مدنظر رکھ کے نئے عہد نامہ کی صداقت کے بارے میں لکھا۔
اسلام کا نظر یہ کہ با ئبل بدل چکی ہے
پورے معاملے میں یہ ایک تنازعہ ہے کہ بائبل نے یسوع کی الوہیت کی وضاحت کم کی بلکہ قرآن 116:5 کے نظریہ کے مطابق تثلیث میں جو مسیحیوں کا عقیدہے۔ اللہ ، یسوع ، مریم ایک ہیں جبکہ بائبل یا قدامت پسند مسیحی اس نظریہ کی حمایت نہیں کرتے ان کے نزدیک تثلیث کا فارمولا باپ، بیٹے اور روح القدس رہاہے۔ اگر آپ “باپ اور بیٹے کے مجازي یا علامتی استعمال کے بارے میں مذید سمجھنے میں دلچسپی لیں تو میرے دوسرے پیغام میں اس رشتے کے وضاحت کی گئی ہے۔
یسوع خدا کا بیٹا ہے
ویسے بھی بائبل متاثر کن متن کے طور پر سچی ہے یسوع کے الفاظ اور انجیلی بیان آپ کو اس کی الوہیت بتانے میں تعاون کریں گے۔ شاید پہلے یہ بات مسیحا کی حیثیت قبول کرنے والے مسلمانوں کے عارضی مشاہدہ یا شک کی بنا پر ظاہر نہ ہو بہر حال تناقضات کے مظہر میں یسوع باہر آکر الہی مسیحائی حیثیت کے کردار پر پورا اترنے کے بارے میں نہیں بتائے گا ۔ متی 11: 2 – 6 اور ان لوگوں کی مذاحمت کرتے ہوئے آگے نکل جائے جو اسے بادشاہ بناتے ہیں ۔ یوحنا 6: 14 – 15 اور قوموں کی دنیاوی بادشاہت کو رد کرتے ہوئے مذید بتائے کہ اس کی بادشاہی دنیا یا دنیاوی نظام کی نہیں یوحنا 8: 36 – 37
اس سلسلہ میں وہ ان دشمنوں کا سامنے نہیں کرے گا۔ جو ہچکچاتے ہو یسوع کو مسیح یا مسیحا مانتے ہیں۔ 22: 66 – 71
یسوع نے خود اپنی الوہیت کے بیان کی منادی نہ کی۔ جبکہ پہلے بپتسمہ دینے والا خداوند کا رستہ تیار کرنے آیا۔ یوں یسوع کا ثانوی مشن خدمت کروانا نہیں کرنا تھا۔ نجی گفتگو کے روران یسو ع نے اصلی شناخت ایماندار شاگردوں پر ظاہر کی جبکہ وہ خود ایسا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ایک آزاد سوال میں ان سے پوچھا کہ وہ یسوع کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے شاگر انسانی گواہی پر انحصار کریں بلکہ ان پر خدا باپ ، بیٹے اور پاک روح کی الہی ایجنسی کا انکشاف ہو۔
متی 16: 13 – 20 ، یوحنا 6: 44 ،یوحنا 13:16
آخر میں ان نے وقت سے پہلے اس کے ذکر سے منع کیا۔
یہ سننے میں عجیب ہےکہ یسوع نے کیسے خود کو ظاہر کرنے سے گریز کیا ۔ ایسا صرف ان نے زمین پر وقت پورا ہونے تک دشمنوں سے چھپائے رکھنے کے لیے کہا۔ تاکہ مخالفین کے لیے اعتراض نہ بن جائے جو سچائی کی تشویش کے لیے اس کی گواہی کو رد کرتے وہ اس میں غلطیاں اور گناہ ڈھونڈتے۔ پس اس مکاشفہ کا علم شاگردوں پر ظاہر ہوا جبکہ غیر ایمانداروں سے چھپائے رکھا۔ خدا اور پاک روح نے انہیں اندھا اور بہرہ بتاد یا۔ جبکہ ایمانداروں کی آنکھیں اور کان کھولے کہ وہ سچائی کو سنے اور دیکھیں۔ اس نے اپنے موتی سوروں اور کتوں کے آگے پھیکنے سےگریز کیا۔
بالواسطہ طورپر یہ موضوع بائبل کی سچائی پر پختہ شہادت ہے یہ اچھا ہو گا کہ اس علم کی جعلی تصنیف پر یسوع کی الوہیت کی تصدیق کے لیے کلام کے انجیلی بیانات اپنے کام لیں۔ آئیے اب یسوع کی قدرت کے اظہار ، یسوع کے الفاظ اور اعمال کے الہی جوہر پر اس کے شاگردوں کے انجیلی بیانات پر نظر ڈالیں۔
عبرانی کلام میں جو خدا کا ذاتی نام تھا۔ یسوع نے خدا کے نام کو خود پر لاگو کیا ” میں ہوں” یوحنا 8:58
اس نے خود کو بنی نوع انسان کی عدالت کرنے والا کہا 
متی 25: 31 – 46 لوگ مذاحمت کئے بغیر آزادی سے اسکی خدمت کرتے۔
یوحنا38:9 اس نے کہا اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں اور اسے سجدہ کیا۔
متی33:14 اور جو کشتی پر تھے انہوں نے اسے سجدہ کر کے کہا یقینا تو خدا کا بیٹا ہے۔
متی 28: 9 – 10 اور دیکھو یسوع ان سے ملا اور اس نے کہا سلام! انہوں نے پاس آ کر اس کے قدم پکڑے اور اسے سجدہ کیا۔ اس پر یسوع نے ان سے کہا ڈرو نہیں جاؤ میرے بھائیوں سے کہو کہ گلیل کو چلے جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے۔
متی28: 16 – 20 اور گیارہ شاگرد گلیل کے اس پہاڑ پر گئے۔ جو یسوع نے ان کے لئے مقرر کیا تھا اور انہوں نے اسے دیکھ کر سجدہ کیا مگر بعض نے شک کیا۔ یسوع نے پاس آ کر ان سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ ان کو باپ اور بیٹے اور روح القد کے نام سے بپتسمہ دو اور ان کو یہ تعلیم دو کہ اس سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔
یوحنا 28:16 میں باپ میں سے نکلا اور دنیا میں آیا ہوں پھر دنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاتا ہوں۔
یوحنا 5:17 اور اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔
مرقس 28:2 پس ابن آدم سب کا بھی مالک ہے
متی 22: 41 – 45 اور جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے یہ پوچھ کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو۔ وہ کس کا بیٹا ہے انہوں نے اس نے کہا داؤد کا اس نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا مری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہےتو وہ اس کا بیٹا کیوں کر ٹھرا۔
متی 7: 21 23 جو مجھ سے اے خداوند اے خداوند کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے
نبو ت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے۔
اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا میر ی کبھی تم سے واقفیت نہ تھی اے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔
یوحنا 13:13 تم مجھے استاد اورخداوند کہتے ہو اور خوب کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔
یوحنا باب ایک میں یسوع کوخدا کہا گیا کہ دنیا کو بنانے میں ان کی جلالی حالت پہلے سے موجود تھی۔ اس وقت یسوع خلا کے اند عمل میں کم نمایاں تھا۔ خد ا کے ساتھ الہی مساوات کے توہیں آمیز دعوؤں کے احتجاج پر اس نے دشمنوں سے مکمل طور پر فراریت اختیار کی جو اسے پسپا کرنا چاہتے تھے۔ یوحنا 5: 17 – 18
مرقس 2: 5 – 7 اسکے اور لوگوں کے مطابق وہ انسان کی حدود سے باہر ہے بالآخر کلام کے مطابق بھی اسکا درجہ بنی نوع انسان اور انبیاء سے زیادہ ہے۔ اس کے دشمنوں سے مکمل طور پر فرار ہونے کے لیے اس وقت یسوع خلا کے اندر عمل میں کم نمایاں تھا جو اسے پسپا کرنے کے لیے تیار تھے۔
آخر میں میرا سوال ہے کہ آپ بائبل کو متعبر سمجھتے ہیں تو یسوع کی الوہیت کے تصدیق کے لیے ان آیات پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ اسے محض اس باپ پر بر طرف نہ کرے کہ یہ آپ کے مذہبی ، دنیاوی نقطہ پر پوری نہیں ہوتی، بائبل کے دعوؤں پر ناحق انکار کی کوشش نہ کریں۔
ورنہ تم یسوع کے دن اپنے اور مذہبی تعصب سے منسوب گنہاگاروں میں کوئی فرق نہیں دیکھوگے۔ جو بائبل کے گواہ ، یسوع کے الہی الفاظ کی گواہی ، ایمان اور بھروسے کے علاوہ یسوع کے مسیحا ہونے کے ساتھ محض انسانی مسیحا کے جلد آنے پر انکار کرتے ہیں۔ یوحنا ، متی 7: 24 – 27

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردوUrdu

The Divinity of Jesus and Islam

Permission granted by David Woods for excerpts taken from the article on “ Muhammad and the Messiah” in the Christian Research Journal Vol.35/No.5/2012

مسیح کی مصلوبیت اور اسلام

Friday, January 9th, 2015

جب مسیح کی موت کے بارے میں بات کی جائے تو یہ صرف بائبل اور قرآن کے مسیح کی موت کے بارے میں متصادم بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس سلسلے میں ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جوکہ سیکولر سوچ رکھنے والوں کی طرف سے تاریخی اور کرخت نکات پر مبنی ان باتوں سے ہے۔ جو مسیحی عقیدے کے مکمل خلاف ہے ۔ ان ذرائع میں اس قسم کی اشتعال انگیز مضامین بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ “مارابار سیرا پین ، یہودی تالمہ، عقالیس ، کورنیلس ، ٹیکٹس اور فالوس جو زمسس جو کہ رومی اور یہودی نظریات کو بیان کرتی ہیں۔
مسیح کی مصلوبیت کسی گمنام کونے میں بھی نہیں ہوئی اور مسیح کے دشمنوں کے لیے یہ کوئی مخص اتفاقی واقعہ نہ تھا جو کہ غلطی سے پیش آ گیا ہو کیونکہ وہ مسیح کی لاش کی جب وہ قبر میں رکھی گئی تھی نگرانی تک کرتے رہے۔ وہ یسوع کی موت سے پریشان نہ تھے کونکہ ان کو زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اس نے دوبارہ جی اٹھنے کا دعوی کیا تھا اور اس بات سے بھی کہ کوئی اس کی لاش کو چرا کر نہ لے جائے۔
نئے عہد نامے کی روشنی میں اس سارے واقعے کو دھوکہ دہی قرار دینا قطعی ممکن نہیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف اس مرکزی واقعے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے تمام واقعات مثلاً مصلوب کیے جانے سے لیکر جی اٹھنے اور پھر دوبارہ دکھائی دینے تک ہے۔
اصل میں مسیح کی موت صلیب پر شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب اس کو کوڑے لگائے گئے اور یہ اس پر لگائے گئے تمام الزام کے مقدمات کے بعد تھا جو رومی اور یہودی فرقوں کی طرف سے لگائے گئے تھے۔ لہذا اس تمام دورانیے میں ان سب سے لگائے گئے تھے۔ لہذا اس تمام دورانیے میں ان سب کا مسیح سے براہ راست سامنا رہا جس کی بدولت وہ اس کی شناخت میں کسی شک کا اظہار نہ کر سکتے تھے۔
مسیح کی زندگی اور حدمت کی بہت سے لوگوں نے گواہی دی ہے بلکہ اس کی صلیبی موت کی اس سے بھی زیادہ اور اس وقت وہاں ہر قسم کےلوگ تھے ۔ جب اس کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ ان لوگوں میں رومی سپاہی، یہودیوں کے مذہبی رہنما اور یسوع کے پیروکار جن میں شاید یسوع کا شاگرد یوحنا بھی شامل ہے۔
وہاں وہ لوگ بھی تھے۔ جوان مقدمات اور صلیبی موت کے دوران مسیح سے بات چیت کر رہے تھے۔ اس لیے ایسا ہونا قطعی ناممکن سی بات ہے کہ اس وقت جب تمام لوگ جو اسے جانتے تھے موجود تھے اور اس کے درمیان سے دھوکے سے یا ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے بچا لیا جاتا۔ اور یہ اس بات کے بھی بالکل خلاف ہے کہ خدا کبھی جھوٹ بولے اور حقیقت کو چھپا کر کچھ اور واقعہ لوگوں کے سامنے لائے کہ یہوداہ اصل میں مسیح تھا۔ وہ الفاظ جو اس مقدمے اور تصلیب کے عمل میں بولے گئے وہ یہوداہ کے ساتھ کسی صورت یکجا نہیں ہوتے جبکہ اس شخص نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ مسیح ہے۔ اس شخص نے اس قسم کے لفظوں کا بھی استعمال کیا کہ “تم آج ہی میرے ساتھ جنت میں ہوگے” اور “انہیں معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں ” اور ” اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ یہ بیانات اس گروہ کی جانب سے تھے جوکہ بے قصور تھا نہ کہ اس کی طرف سے جو دھوکہ اور فریب دے رہے تھے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ مسیح نے جی اٹھنے کے بعد زمین پر اپنی موجودگی کا ثبوت کس طرح دیا۔ مسیح نے اپنے زخم شاگردوں کو دکھائے اس لیے یہ سمجھ لینا یا کہہ دینا یہ تمام تر واقعہ محض ایک سازش کا حصہ ہے۔ قطعی ممکن نہیں۔ کیونکہ نیا عہد نامہ اس بات کی گواہی اور ثبوت پیش کرتا ہے ، اور اس کے علاوہ اور بیرونی ذرائع بھی ہیں جن کا ذکر بھی میں نے کیا ہے۔ پرانا عہد نامہ بھی اس سلسلے میں بہت سی جگہوں پر اس واقعے کے بارے میں اشارہ دیتا ہے اور اس کو تو مسیحی لوگ تبدیل یا ختم نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ یہودیوں نے پرانے عہد نامے کی تحریروں کر تو مسیحیت کے آغاز سے بہت پہلے محفوظ کر کے رکھا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے۔ کہ جب کوئی سیکولر یہودی پرانے عہد نامے کو پہلی بار سنتا ہے خاص طور پر یسعیاہ باب نمبر 52 آیات 13-53 : 12اور زبور 22 کو وہ کبھی کبھار ان کا تعلق مسیح کی صلیبی موت اور اس مصیبت زدہ ملازم سے کرتے ہیں۔ اس نکتہ پر وہ اکثر اعتراض کر کے مخالفت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو شاید مسیحی بائبل میں سے کچھ پڑھ کے سنایا جارہا ہے یہ بات جانے بغیر کہ یہ عبارتیں دراصل انکی اپنی مقدس کتابوں میں سے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان آیات سے اس کے دکھوں اور صلیبی موت کا ذکر کرتے ہیں جو کہ کسی صورت بھی کوئی فرض یا من گھڑ قصہ یا منظر کشی نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے قتل کا طریقہ کار عام نہیں ہوا تھا۔ جب اسکے بارے میں نبیوں کی زبانیں یہ باتیں کہہ دی گئیں۔ بہرحال میں آپ کو ایک رابطہ نمبر بھیج رہا ہوں کہ آپ بائبل کی عبارتوں کو انگریزی حوالہ کے ساتھ سمجھ سکیں۔

www.bible.com/bible/189/isa.1.urd
www.bible.com/bible/189/psa.1.urd

آخر میں یہاں تک کہ اگرچہ آج کے چُبتے ہوئے حقائق بائبل کی چند عبارات کی مخالفت بھی کرتی ہیں جن کا تعلق مسیح کے مصلوب کیے جانے سے ہے مگر مسیح کی صلیبی موت کو وہ پھر بھی قبول کرتے اور مانتے ہیں او ر شاید یہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یسوع اسی سلوک کا مستحق تھا کیونکہ وہ الگ انقلابی تھا۔
آخرکار مسیح کا پیغام اس کے جذبہ اور تبلیغ کی تشریج کرتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنی موت کا ذکر کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے شاگرد بھی اس کی باتوں پر اور ان تمام واقعات کے رونما ہونے کے ذکر پر بہت حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ کچھ تو اس بات کے ہونے کا انکار بھی کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیوں اسی تو قعا ت تھیں کیونکہ یہودی اس وقت غیر ملکیوں کے قبضہ میں تھے اور ان کے نزدیک مسیحا وہ تھا جو ان کو اس غیر ملکی قبضہ سے چھڑانے اور نجات دلوانے والا تھا۔ اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اصل میں مسیح ہی وہ ہستی تھے جو ان کے لیے اس وحشیانہ قتل کا شکار ہونے والے تھے۔ یہ ظاہر ہوتا کہ ان کے لیے شاید یہ بہتر تھا کہ وہ قرآن کو سمجھتے اور مسیح کے دوبارہ ظاہر ہونے کو قیامت کے دن سے استوار کرتے کہ جب وہ آکر سب چیزوں کو دوبارہ بحال کرے گا۔
دراصل انہیں اس بات کی ضرورت نہ تھی کہ وہ اپنے پرانے عہد نامے کے ان حصوں اور عباد ت کو اچھے طریقے سے سمجھتے اور آج بھی یہودی لوگ ان تحریوں کے بارے میں بالکل نابلد ہیں اگرچہ بہت سے یہودی اپنی عبا رتو ں کو پڑھ کر ایمانداروں میں شامل ہوگئے ہیں، جن کا عبارتوں کا حوالہ میں نے دیا ہے۔
اگر اس معاملے کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ سار معاملہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب اس کی صلیبی موت اور دکھوں کو ایک نشان کے طور پر مکمل طور پر سمجھا جائے اور یہ کہ یہ سب کچھ خدا کے ابدی منصوبے میں شامل تھا۔ اس لے ہمیں کسی بھی قسم کے غلط اور گمراہ کن ترجمانی کا انکار کرنا چاہیے۔
اگر آپ کو بائبل کے عقیدہ کے بارے میں تحقیقی سروے کا موقع ملے تو یہ معاملہ شفاف ہو جائے گا کہ بائبل میں نجات کا جو بین لاقوامی نظریہ ہے وہ دراصل دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا اور اپنے نقطہ عروج پر مسیح کی صلیبی موت کے وقت پہنچا اس کی دکھ بھری صلیبی موت ، جیاٹھنا اور زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کو نجات کے قرمزی دھاگے کا نام دیا جاتا ہے جس نے تاریخ کے صفحہ پر قربانی اور مسح کیے جانے کے تمام نظام کو بیان کیا۔
قربانی کا نظام خدا کے انصاف اور رحم کے ساتھ مجتمع ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے موت اور گناہ کا مقابلہ کیا جاتا ہے یہ قانون ایک طرح سے مناسب اور پہلے سےموجود ہو عہد کو توڑنے والا ثابت ہوا اور اس کی پہلے وقتوں کی جانوروں کی قربانی اور ہدیوں کا متبادل کہاگیا ۔ اشتشنا کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ خون بہائے بغیر گناہوں سے معافی ممکن نہیں۔ اس لیے اس جانور کو معصوم ، پاک اور نعم البدل سمجھا گیا ان گروہوں یا افراد کے لیے جو اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی کے لیے تاکہ اس کا خون ان کے لیے بہایا جائے۔
یہ تمام قصہ وہ ہے جو نئے عہد نامے میں عبرانیوں کی کتاب میں مسیح کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ جو کہ پرانے عہد نامے میں موجود ان پرانے مسودات کی حقیقی صورت ہے جو کہ خد اکے برے کی صورت میں قربان کیے جانے کے لیے دیا گیا۔ تاکہ اس نے اس کام کے ذریعے سے انسان کا خدا کے ساتھ ملاپ اور اطیمنان حاصل ہو۔
مسیح کے دنیا میں آنے کا سبب یہ تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی نمائندگی کرے اور کیونکہ وہ گناہ سے پاک تھا اور صرف وہی وہ سب کر سکتا تھا جو میں اور آپ نہ کر سکتے تھے کیونکہ خدا کے بے عیب برہ نے بخوشی اس سزا کو قبول کیا جوکہ دراصل ہمارے گناہوں کی بدولت تھی۔ اگر ہم مسیح کی راستبازی کا موازانہ کریں تو ہم اس کے سامنے کچھ بھی نہیں کیونکہ ہم نے گناہ کیا اسلئے اگر ہم ایک دوسرے سے بھی موازنہ کریں۔ تو شاید ہم صرف ایک ٹانگ پر کھڑے ہوں لیکن جب ہم خود کاموازانہ ایک سچے اور پاک خد ا کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمار ا یہ اعتماد بھی فوراً کھو جاتا ہے ۔کہ ہم میں کچھ اچھائی ہے۔ یہاں ہم سیبوں میں امتیاز نہیں کر رہے۔ جب ہم اپنے اور دوسرں کے درمیان موازنہ کرتے ہیں اور جب ہم خدا کے انصاف کے تخت کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ہم بڑی عاجزی سے اس حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں کہ اگر ہم خدا کی مخلوق ہیں اور ایک بڑے درخت کی مانند ہم نے گلے سڑے پھل پیدا کیے ۔خدا ہر چیز کا لکھنے اور بناے والا ہے اور جو اس سے زیادہ یا کم ہو وہ اس کے کردار کے خلاف ہے۔ لہذا اہم میں سے سب قسم کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ جب ہم خود خد اکے سامنے نا کافی راستبازی کے ساتھ موجود ہوں۔ ہم اس کے سامنے بالکل برہنہ ہیں کہ اگر ہمارا ایک بھی عمل ہمارے سامنے آ جائے تو ہم خود کوکیسے سرزنش کریں گے کہ جب ہم زندگی کے بنیادی قوانین کے بھی پاسدار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم خود کو خدا کے انصاف سے نہیں بچا سکتے ۔ جو کہ کاملیت کا تقاضہ کرتا ہے۔
تاہم بائبل کا خدا کو محبت کے خدا کے طور پر بھی بیان کیا گیا ہے اور ہم اس کے محبت بھرے سلوک کا اظہار ہمارےگناہوں کی مخلصی کے لیے برہ مہیا کرنے صورت میں ہے۔ جس سے اس کا ہم پر رحم ظاہر ہوتا ہے۔
خدا کسی قسم کی ہم پر پابندی لاگو نہیں کرتا کیونکہ وہ یقیناً مکمل طور پر انصاف پسند ہے کہ ہمیں اس کی عدالت اور انصاف اور اس کے غضب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تا ہم ہمارے لیے خوشخبری یہ کہ ہم خدا کے غضب سے بچ گئے ہیں اور ہمیں بچایا بھی خدا نے ہی ہے۔ اور یہ سب مسیح کی زندگی۔ تصلیب اور جی اٹھنے کے ذریعے ہوا۔ خدا نے یہ انتظام اس لیے کیا کہ اس نے ہمارے لیے خدا سے ملاپ کا یہ حل پیش کیا ورنہ ہم خدا سے دور اور تباہی کا شکار ہو جاتے۔ اب ہمیں خدا کی طرف سے مکمل یقین دہانی ہے اس لیے اب ہم اس زندگی سے دوسری زندگی میں آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں۔
اور ہمیں ابدیت کے حصول کے لیے کسی قسم کے پانسوں کو جھیلنا نہیں پڑا۔ شاید یہ تمام محبت ، رحم اور قربانی وغیرہ آپ کے نزدیک بے معنی ہوں اور شاید آپ حیران ہوتے ہوں کہ خدا کیسے اتنی غیر موازنی صورتحال دیکھ سکتا ہے کہ ہم ایک وقت میں ہی اس قربانی اور رحم کا حصہ بن گئے ہیں۔
جب ہم اس سب کو سمجھتے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم کسی کی محبت میں والدین یا میاں بیوی کی حیثیت سے اپنی بڑی قربانی دے سکیں۔ کیونکہ صرف خدا کی محبت اور اس کی ہمارے لیے قربانی کا انتظام ہی سب سے کامل ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی ہمارے لیے محبت یا اپنی مخلوقات کے لیے محبت لامحدود ہے اور کوئی اس کی برابری نہیں کرسکتا۔ میرے دوستو خدا نے زندگی اس لیے نہیں دی کہ ہم دوزخ کی آگ کا شکار ہو جائیں۔ اور بائبل بتاتی ہے کہ دوزخ کی آگ دراصل شیطان کے لیے تیار کی گئی تھی۔ تو پھر ہم اس قدر نجات کے لیے تیار کیے گئے اس قدر بہترین انتظام کا خاطر میں نہ لائیں۔ بڑے احترام کے ساتھ میرا آپ کے لیے یہ چیلنج ہے کہ آپ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟
احترام کے ساتھ میرا آ پسے چیلنج ہے کہ آ پ اپنے جر م کے سا تھ کیسے نمٹتے ہیں۔ کیا آ پ جنت کے اہل ہو نے کے لیے اچھے کا م کر تے ہو ئے اس پرحیرا ن ہو ئے یا غو ر کیا ۔
کیا آ پ کو یقین ہے کہ وا قعی اللہ آ پ کی زند گی کو قبو ل کرتا ہے ؟
نتیجتاًخدا کا پیا ر ہمیں بے یار و مد گا ر اور نا امید نہیں چھوڑتا وہ یسو ع کو جس پر ابد ی زند گی کے لیے ہم بھر و سہ کر تے ہیں ہمیں دیتے ہو ئے اپنی افرا ط محبت کو انڈیلتا ہے۔
آ خر میں یسو ع اپنے علم اور خدا کے سا تھ ذا تی تعلق کے ذر یعے آ پ کو گنا ہو ں سے رہا تی ، نا فر ما نی کے قر ض سے چھٹکا ر ہ اور مذ ہبی تو قعا ت کی نٹھر تی سے رہا ئی کے لیے
آ پ کو دعو ت دے رہا ہے۔
متی 30 – 28 :11
اے محنت اٹھا نے وا لو اور بو جھ سے دبے ہو ئے لو گوں سب میرے پا س آو۔میں تم کو آ رام دوں گا ۔
میرا جو ا اپنے او پر اٹھا لو اورر مجھ سے سیکھو ۔ کیو نکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تو تمہا ری جا نیں آرام پا ئیں گی۔ کیو نکہ میرا جو ا ملا ئم ہے۔ اور میرا بو جھ ہلکا ۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Crucifixion of Jesus Christ and Islam

اللہ کا نام پاک نہیں ہے

Friday, January 9th, 2015

اسلام میں خدا کا شخصی نام اللہ ہے اس نام پر اور اس میں بیس مختلف مشتقات کا امکان ہےجو ایک مصمہ بنا رہا۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ نام کافر دیو تاؤں کے لیے استعمال ہوتا جس کی عرب کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ پس اللہ کے نام کا استعمال خدا کی طرف سے محمد پر وحی نازل ہونے سے پہلے ہوتا تھا۔

خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے

مسلم اور اسلامی ذرائع

اردو-Urdu

Allah’s Name is not Sacred