جب آپ دنیا کے بڑے مذاہب پر غور کریں تو عام معمول کی زندگی میں آپ اپنے آپ کو
پا ک کرنے کے کچھ اصول اپنی زندگی میں اپنا ئےہو ئے ہیں یہ زچگی سے موت تک شامل ہیں روزمرہ کی زندگی کی کئی سرگرمیوں اور انسانی تجربا ت میں شامل ما ہوری ، معدے میں شدید تیزابیت ، سونے ، جنسی تعلقات ، دورے میں ، خون بہنے میں ، احتلام کے ، قے آنے ، میں اور دیگر بیما ریوں وغیر ہ میں اپنے آپ کو صاف کرتے ہیں۔
کچھ صاف کرنے کی رسومات میں غسل کرنا بھی شامل ہے یہ اہم بھاہا ئی ایما ن میں عام ہے جبکہ دوسرے ، اپنے جسموں کو مکمل طور پر پانی میں ڈبو دیتے ہیں ۔مکو ا یہودیو ں میں ہا تھ دھونے کی رسم جبکہ مسلما نو ں میں غسل وضو کی رسم پا ئی جا تی ہے ۔ہندو دریا ئے گنگا میں نہا نا اور اچا منا اور پنیہا وا چا نا م پرعمل کر تے ہیں۔ شینٹو ش مو گی اور آبا ئی امریکن انڈین سیوٹ لو ج پر عمل کر تے ہیں۔ اگرچہ یہ مذاہب دنیا میں مختلف خیالات رکھتے ہیں لیکن سب میں مشا بہت اور ہم آہنگی پا ئی جا تی ہے ۔ جسے سب میں پا نی کا شامل ہو نا ۔ ہرشخص شعوری طور پر نا پا کی کی پہچان رکھتا اور اِسے دور کرتا ہے ۔ یہ عارضی طور پر پاک صفائی کا عا لمی ذریعہ ہے ۔
یہ خود آ گا ہی بعض مذہبی اظہا ر میں پا ئی جا نے کی و جہ صفا ئی کی قد یم کہا و ت کےمطا ب
با ضا بطہ نقطہ نظر کے سا تھ ایک ما و را ئی حقیقت کے احسا س کے متو جہ ہو نے کی طر ف رو یہ دیند ار ی ہے۔ تا ہم یہ کہناکہ اس با ہمی تعلق کی طبعی حالت میں مُجر ب نما ئندہ کے طور پر الٰہی نا خو شی اور عدم اطمینا ن سے نمٹنا ہے۔ جو غسل کے لا متنا ہی چکر کی سر گر میوں میں
مو زوں طو ر پر پاک اور مقد س ہو نے میں نا کا م ہیں۔ جن میں وہ مختصر صا ف رہنے میں با ر با ر نہا نا دھو نا
شا مل ہے۔
اس طر ح سے ظا ہر کہ اس پو ری تکرا ر میں انسا نی دلو ں کی آ لو دگی کے خا تمہ میں نا پا ک دل کو پا ک بنا نے کے لیے کسی کی ضر ور ت ہے۔ اپنی خو د شنا خت کے نا قابلِ پہنچ حصے تک پہنچنے کے قا بل ہو نے کے لیے حتمی معنی کو ہٹا یا نہیں جا سکتا ۔ ویسے بھی حقیقی عملی حفظا ن صحت کے کچھ فو ا ئد غسل اور دھو نے کے ہیں۔ لیکن شا ید ان کی اصلیت مخلص ہو اور ظا ہر اً حکمت کی ایک شکل دکھا ئی دے لیکن سطحی جلدکے گہرے علا ج کے ذر یعے فر د کی دا خلی اور خا ر جی پہلووں کے درمیان ایک بر اہ ِ را ست انجمن کے مو اد میں دائرہ روح سے جسما نی طور پر نا اہلی کی سطح سے آ گے لو گوں کی روح کو حاصل کر نا ہے۔
ربی پیشوا اِس طرزِ عمل پر یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
متی 1:15-2، 17:11 -20
اُس وقت فریسیوں اور فقہیوں نے یروشیلم سے یسوع کے پا س آکرکہا کہ تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھاناکھاتے وقت ہا تھ نہیں دھوتے۔
جو چیز منہ میں جا تی ہے وہ آدمی کو نا پاک نہیں کرتی مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو نا پا ک کرتی ہے۔
کیانہیں سمجھتے کہ جو کچھ منہ میں جا تا ہے وہ پیٹ میں پڑتا اور مزبلہ میں پھنکا جا تا ہے مگر جو با تیں منہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں اور وہی آدمی کو نا پا ک کرتی ہیں کیو نکہ بُرے خیال خونریزیاں ، زنا کا ریاں ،چوریاں ، جھوٹی گوائیاں، بدگو ئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں یہی با تیں ہیں جو آدمی کو نا پا ک کرتی ہیں مگر بغیر ہا تھ دھوئے کھا نا کھانااآدمی کو نا پا ک نہیں کرتا ۔
انسانی نجاست کے علاوہ اِس معاملے کے دوسرے پہلو نمایا ں طور پر احساس اورجرم اور شرم ان اخلاقی ناکامیوں سے پیچھے رہ کر گندگی کو دورکرنے کے لئے گہری وصولی کی تفہیم کے ساتھ نمٹتےہیں ۔
شیکسپئیر کے ڈرا ے ”آ وٹ ۔ ڈیم سپا ٹ” کی یا د دلا تا ہے جس میں با د شا ہ ڈیکن کی
مو ت پر لیڈ ی میکبت کے کر دا ر کے با رے میں جہاں اس کے ہا تھوں پر سے گنا ہ
آ لو دہ خو نر یزی کو دور کر نے کی ضرور ت تھی۔
احتراماً اپنے اقدامات کے ذریعے اِن رسوما ت کو انجام دے کر بدعت کے بیان کو تسلیم کرنے کا اقرارایک بالو اسطہ طریقہ بن جا تاہے جوغسل کا انسانی صلاحیت اور ذاتی کوشش کے مطابق کسی نہ کسی طرح پراسرارکام بن جا تا ہے ۔جو
کا فی اچھے طریقے سے جبری ڈرائیوکے ساتھ اخلاقی نا کا میوں کو صاف بنا دیتا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ یہ اپنے شعور ۔ خو ا ہش ۔ تقویٰ اور جو ش سے قطع نظر قا بلیت کا مظاہر ہ کر نے میں نا کا م رہے۔ محدود ذرائع کے ذر یعے ان معا ملا ت کی تو ثیق یا
مصا لحت کی تد فین کے کا فی اسبا ب ہیں۔ اور مطمئین کر نے کے لیے انسا نی
صلا حیتوں کے انحصار سے کسی حد تک ان مختلف نظریا ت کی طر ف حما یت اور قبو لیت حاصل کرنے کی طر ف رجو ع ہو نے کی ابتدا ہے۔ یہا ں تک کہ یہ سب کسی نہ کسی طر ح اس وقت ممکن تھا۔ جب ان کی حیثیت یا نا پا کی کی حالت کو بر ی الزمہ کر دیا
جا ئے اور اس نشان کو جو دل پر پکا چھوڑا گیا کس در جہ سے صا ف کیا جا ئے گا جس پر
ما ضی اور مستقبل دو نوں اعمال سے مو ت کے سا تھ روح کا رنگ کیا ہے جو اس تنا ز عہ کے حل کر نے میں ناکا م ہونے وا لوں کے لیے مستقبل کے آ سنن احسا س کے سا تھ نشا ند ہی کے طورپر مقدس خدا کے معیا ر کی خلا ف ور زی ہے یہ قطعاً حقیقی شعوری
احسا س ہے جو تمام بنی نو ع انسان میں مو جو د ہے۔
16-14:2رومیوں
چنا نچہ وہ یہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہو ئی دکھاتی ہیں اور ان کا دل بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے اور ان کے با ہمی خیالات یاتو ان پر الزام لگاتے ہیں یا ان کو معذور رکھتےہیں جس روز خُدامیری خوشخبری کے مطابق یسوع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پو شیدہ با توں کا انصاف کرےگا ۔
بنی نوح انسان خیالی مذہبی مکالمات یا نظریات کے قیام یا تخلیق کی کشیدگی کے ساتھ نمٹنےکے لئے جدوجہدکر رہا ہے ۔یہ ایک دہکتی ہو ئی پگڈنڈی کی طرح روشن خیالی کی جا نب
جا تے ہو ئے حل تلاش کررہا ہے ۔ جبکہ مخالف یزدنی منوروگی کی دشمنی سے دھوکا کھا رہا ہے ۔ جو بیرونی منصوبہ کی تلاش میں ذاتی سچی لگن کی ضرورت کو چھوڑ نے کا انکار کر رہا ہے ۔ایساعقیدہ کہیں اور رہنمائی نہیں کرتا ۔نفسا تی نظریہ کے مطابق کمزورچاہ کے شخص میں اعصاب دم توڑدیتے ہیں اسی طرح ایمان کی زمین پا نے کے لئے مذہب ایک راستہ بنتاہے ۔بڑی دلچسپی کی با ت ہے کہ زندگی گزارنے اور اپنے معا ملات سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرا راستہ خالق سے ملتا ہے ۔
دیگر مذہبی نقطہ نظر کے بر عکس اس بحران کے جو ا ب میں ، میں یسو ع کی ذا ت سے حل تجو یز کر نا چا ہوں گا۔ انسا نی کا و ش سے خدا تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ بلکہ خدا کے تعا قب میں انسا نی ذا تی پا کیز گی اور طہا ر ت کی قو ت یا اصلا حا ت سے ممکن نہیں بلکہ یہ مفت تحفہ خدا اور پا ک رو ح کی ر فا قت سے ملتا ہے جو ہما رے لیے ممکن نہ تھا۔
5:3ططس
تو اُس نے ہم کو نجا ت دی مگر راستبازی کے کا موں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اورروح القدس کے وسیلہ سے ۔
23:6رومیوں
کیونکہ گنا ہ کی مزدوری موت ہے مگر خُداکی بخشش ہمارے خُداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے ۔
9-8:2افسیوں
کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے ۔اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خُداکی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے تا کہ کوئی فخر نہ کرے۔
1
7:1 یوحنا
لیکن اگر ہم نور میں چلیں جس طرح کہ وہ نور میں ہے ۔تو ہما ری آپس میں شراکت ہے ۔اوراس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تما م گنا ہوں سے پا ک کرتاہے ۔
1
9:1یو حنا
اگر اپنے گناہوں کا اقرارکریں تو وہ ہما ر ےگناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری نا راستی سے پا ک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔
آپ شاید یہ ماننےپر اعتراض کریں کہ پا نی کے بپتسمہ سے پاک ہونے کاعنصرمسیحت میں دوسرے مذہبی اظہار سے مختلف نہیں ،میں اس با ت سے اتفاق کرونگا ۔ کچھ کےلئے تو یہ محض ایک غسل کے علاوہ کچھ نہیں جو جو ہر میں نا پاک ایمانداروں کے طورپر کلیسیاکے ساتھ شناخت کی التواکےطور پر چل رہےہیں ایمان کے مرکزی دائرے میں سچا بپتسمہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر کفارہ کے شرعی طو ر پر تمام ایمانداروں کو پا ک کرتا اورراستبا ز قراردیتاہے ۔جو ایک ظاہری نشان یا علا مت یسوع کی کامل اور قیمتی زندگی کے خون سے سودمندہے ۔اس طرح پا نی کا بپتسمہ حقیقت کا گواہ یا ثبو ت ہے جو ہا ئیڈروجن یا آکسیجن کے عناصر سےملے پا نی سے نہیں ۔ بلکہ یہ بچت یسوع کے اور پا ک روح کے زندگی کے پا نی کی طرف سے ثبوت کے طورپر رہتاہے ۔
روح القدس میں رہنے کا نجات کا یہ اچھاتحفہ خو د خُدا کا ہے ۔
جن کا انسانی بپتسمہ دینے کی گہری کوششوں کے ذریعے قیام ممکن نہیں ۔چنا نچہ پا نی کا بپتسمہ اِس گہری تبدیلی کے طورپر خُدا کی قوت کی آسمانی حقیقت کے با رے میں ایک جھلک بن جا تا ہے ۔انسان کو نئی زندگی دیتے ہو ئے انسان کی مرضی یا اصل سے پیداہونا نہیں بلکہ خُدا کی ہدایت روح القدس کے ذریعے ایک بار پھر اُوپر سے پیداہونا ہے ۔
ہندواور بدھ مت کے لئے نئے جنم کے تصورمیں اِس طرح نئےسرےسےپیداہونے کے با رے میں الجھانہیں جا سکتا روح القدس میں مسیح کے کام
پر ایما ن یا اعتما د کے ذر یعے اس کی نجا ت کے اقدا م کی پیر وی کا آ غا زہے۔
27-25:36 کلام میں عبر انی پیغمبر حز قی ایل
کے مطا بق اسرا ئیلی کے مستقبل میں کفا رہ کی بنیا د اس حقیقت پر مبنی ہے۔
27-25:36حز قی ایل
تب تم پر صا ف پا نی چھڑ کو ں گا ور تم پا ک صا ف ہو گے اور میں تم کو تمہا ری تما م گند گی سے اور تمہا رے سب بتوں سے پا ک کروں گا اور میں تم کو نیا دل بخشوں گا اور نئی روح تمہارے با طن میں ڈا لوں گا اورتمہا رے جسم میں سے سنگین دل کو نکا ل ڈا لوں گا اور گو شتین دل تم کو عنا یت کر وں گا اورمیں اپنی روح تمہا رے با طن میں ڈا لوں گا اور تم سے اپنے آ ئین کی
پیر وی کرا وں گا اور تم میرے احکا م پر عمل کر و گے اور ان کو بجا لا وگے ۔
ربی پیشوا نے عید خیا م منا نے یا سلکو ٹ کے دوران میں فر ما یا۔
39-37:7 یوحنا
پھرعید کے آ خر ی دن جو خا ص دن ہے یسو ع کھڑ ا ہو ا اور پکا ر کر کہا اگر کو ئی پیا سا ہو تو میرے پا س آ کر پئے جو مجھ پر ایما ن لا ئے گا اس کے اند ر سے جیسا کہ کتا ب مقدس میں آیا ہے ۔زند گی کے پا نی کی ند یاں جا ری ہو ں گئی لیکن اس نے یہ با ت اس روح کی با بت کہی جسے وہ پا نے کو تھے جو اس پر ایما ن لا ئے کیو نکہ روح اب تک نا زل نہ ہو ا تھا اس لیے کہ یسو ع ابھی اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا۔
قد یم یہودیوں کا سب سے بہتر اطمینا ن خدا کے لیے اپنی مذہبی رسوما ت کی ادا ئیگی تھا لیکن عبرا نیوں دس با ب میں ان کے با رے میں یوں لکھا ہے کہ صر ف ان کے لیے ایک علا مت کے طور پر تھیں نہ کہ سچا ئی کے طور پر جبکہ یسو ع کی قر با نی ہما رے گنا ہوں کے دھو نے کے لیے ایک مر تبہ اور سا رے لو گوں کے لیے تھی۔ وہ خدا کا بر ہ قر بانی کے لیے دنیا کے گنا ہ
اُ ٹھا لے گیا اور قربا ن ہو ا۔
تو را ت کے انکا ر کے طور پر لکھے ہو ئے وعدہ کی خلا ف ور زی کے با رے میں آ ج یہودیوں کو ان مذہبی رسوما ت میں نما ز رو ز ہ اور اچھے اعما ل میں مطمئین ہو نے کے لیے قر با نی دینے کی ضر ور ت نہیں ۔
احبا ر 11:17
کیو نکہ جسم کی جا ن خون میں ہے اور میں نے مذبح پر تمہا ری جا نوں کے کفا رہ کے لئے اُسے تم کو دئیا ہے کہ اُس سے تمہا ری جا نوں کے لئے کفا رہ ہو کیو نکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفا رہ دیتا ہے ۔
اب کو ئی با ت نہیں کہ آپ نے کتنے شر عی احکا م انجا م دیتے ہیں ۔اور ان میں کیا ضا من کہ آپ نے کا فی اچھے اعما ل کئے اور آپ کے گناہ معا ف ہو گئے کیو نکہ یسعیاہ 53میں مسیحا کے ذریعے خُدا کی رحمت اور فضل سے اُس عا رضی قربا نی سے الگ تمہا رے گنا ہ معا ف
ہو ئے۔اسی طرح میرے مسلمان دوست اس پیش گو ئی کے اندر نا کا می کی کچھ جھلک کے طور پر یُسوع کی موت کا انکار کر تے ہیں جبکہ خُدا کے جلال کے منصو بہ کو مسیحا کے ذریعے جس نے صلیب پر پرُ مسرت مقصد اور مو قع کے لئے فخر سے شر مندگی بر داشت کی ۔ ابراہمی قسم کے متبادل کفا رہ فراہم کر نے کو مکمل طور پر چھوڑ جا تے ہیں ۔
عبرا نیوں2:12، 2: 9-18
مسیح کی مصلوبیت اور اسلام
آسمانی باپ اِس پا نی کی طرف کہ یسو ع تمہیں زند گی کا پا نی دے سکتا ہے ، تمہا ری رہنما ئی کرتا ہے جو تمہا ری روح کو مکمل طور پر مطمین اور تروتازہ کر سکتا ہے تا کہ تم اِس میں سے پیو ۔
میرے دوستوں میں تمہا ری حو صلہ افزائی کر تا ہوں کہ جھوٹے مذہبوں ، فرقوں اور
نظریا ت سے نہیں جو پیا سا رہنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ سا مر ی عو ر ت کی طرح اپنی روحا نی پیا س کو بجھا نے کے لئے اُس سے زندگی کا پا نی ما نگے ۔
یو حنا 4 :10، 13-14
یسوع نے جو اب میں اُس سے کہا اگر تو خُدا کی بخشش کو جا نتی اور یہ بھی جا نتی کہ وہ کو ن ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پا نی پلا تو تُو اُس سے ما نگتی اور وہ تجھے زندگی کا پا نی دیتا۔
یسوع نے جواب میں اُس سے کہا جو کوئی اِس پا نی میں پیتا ہےوہ پھرپیا سا نہ ہو گا ۔مگر جو کو ئی اُس پا نی میں سے پیے گا جو میں اِسے دونگا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا ۔بلکہ جو پا نی میں اُسے دونگا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جا ئے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جا ری رہے گا ۔
آ خر میں یسوع آ پ کو بلا تا ہے۔
متی 11: 28-30
اے محنت اُٹھا نے والو اور بو جھ سے دبے ہو ئے لو گو سب میرے پا س آومیں تم کو آرام دونگا میر ا جو ا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو کیو نکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تُو
تمہا ری جا نیں آرام پا ئیں گی کیو نکہ میر ا جو ا ملا ئم ہے اور میرابو جھ ہلکا ۔
خداوند کے ساتھ تعلق کیسے رکھنا ہے
مسلم اور اسلامی ذرائع
اردو-Urdu
Ritual cleansing and purification